سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر اچانک شروع کیے گئے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن کے کچھ پوشیدہ راز نئی معلومات میں سامنے آئے ہیں۔
فرانسیسی اخبار لی فیگارو کی بدھ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اردن میں حماس کی قیادت کے قریبی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس حملے کا منصوبہ تقریبا دو سال قبل سامنے آیا تھا اور سنہ 2021ء میں پہلی بار اس کے بارے میں سنا گیا تھا۔
لی فیگارو نے بیروت میں حماس کے رہ نما اسامہ ہمدان کے حوالے سے بھی کہا کہ انہیں 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے کے بارے میں "خبر سن کر” معلوم ہوا۔ اس حملے کے بارے میں سب سے پہلے جماعت کے سیاسی شعبے کے نائب صدر صالح العاروری کو خبردی گئی۔ یہ خبر غزہ سے حماس کے رہ نما یحییٰ السنوار نے دی تھی اور ساتھ ہی انہیں کہا تھا کہ وہ حملے سے آدھا گھنٹہ قبل لبنانی حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو بھی دے دیں۔
ایرانی رہبر اعلیٰ کا جنگ میں شمولیت سے انکار
یحییٰ السنوار اور محمد ضیف نے حملہ شروع کرنے سے پہلے حملے کے لیے اپنی کچھ تیاریوں کو بھی احتیاط سے خفیہ رکھا۔ حملے سے قبل السنوار نے القسام بریگیڈز کی زیادہ تر قیادت کے لیے نئے لیڈروں کا تقرر بھی کیا اور اسرائیل کے شناسا چہروں کو تبدیل کردیا۔ تاہم بہت سے کلیدی عہدوں پر القسام کے کمانڈر برقرار رہے۔ آپریشن سے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل حماس نے اپنے اہم فوجی کمانڈروں پر رازداری نافذ کرتے ہوئے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے محدود کرنے کا حکم دیا تھا۔
اخبار نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ "حزب اللہ کے رہ نما ناراض تھے کیونکہ ایران نے انہیں حماس کے منصوبے سے آگاہ نہیں کیا تھا”۔ دوسری طرف یحییٰ السنوار اور محمد ضیف اس بات پر ناراض تھے کہ حسن نصر اللہ نے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد حزب اللہ کی پوری طاقت استعمال نہیں کی۔
اس سلسلے میں انہوں نے حزب اللہ کو ناراضی کا پیغام بھی بھیجا تھا۔ اس کے بعد حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نےایران کا دورہ کیا اور سپریم لیڈر علی خامنہ ای سے جنگ میں شامل ہونے کی اپیل کی مگر سپریم لیڈر نے ان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18