کہتے ہیں کہ کچھ افریقی قبائل بندروں کو پکڑنے کیلئے ایک انوکھی ترکیب اختیار کرتے ہیں۔ وہ ناریل میں ایک سوراخ کردیتے ہیں جس میں بمشکل بندر اپنا ہاتھ ڈال سکے۔ ناریل کے اس خول کے اندر وہ بندر کی کچھ من پسند چیزیں بھر دیتے ہیں۔ بندر آتے ہیں اور اس خول میں ہاتھ ڈال کر ان چیزوں کو مٹھی میں بھر لیتے ہیں مگر جب بھری مٹھی کے ساتھ ہاتھ باہر نکالنا چاہتے ہیں تو سوراخ چھوٹا ہونے کے سبب نہیں کرپاتے۔ اب عقل کی بات تو یہ ہے کہ مٹھی خالی کرکے ہاتھ کو خول سے چھڑا لیا جائے مگر بندر کو مٹھی میں دبی اشیاء چھوڑنا گوارا نہیں ہوتا۔ یہ بندر چیختے ہیں، دہائیاں دیتے ہیں مگر بھری مٹھی نہیں نکال پاتے۔ شکاری آتے ہیں اور بندروں کو پکڑ پکڑ کر پنجرے میں ڈال دیتے ہیں۔ یوں اپنی حماقت سے بندر آزادی اور خوشی دونوں گنوا بیٹھتے ہیں۔سوچیں تو ہم انسانوں کی اکثریت بھی ان بندروں جیسی ہی ہے۔ جو اپنی اپنی مٹھی میں کچھ تھامے قیدی بنے بیٹھے ہیں۔ چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں شکوے شکایات کررہے ہیں مگر مٹھی کھولنے کو تیار نہیں ہیں۔ کسی مٹھی میں دولت کا جنون ہے، کسی میں کسی سے بچھڑنے کا دکھ ہے، کسی میں غم و غصہ ہے، کسی میں حسرتیں ہیں اور کسی میں کچھ یادیں۔ یہ سب افراد اپنی مٹھی میں دبے جذبات و نظریات کے اسیر ہیں۔ اگر آج اپنی اپنی مٹھی کھول کر ان چیزوں کو ہاتھ سے نکلنے دیں تو وہ سب بھی آزاد ہوسکتے ہیں، خوشی و سکون پاسکتے ہیں۔ مگر نہیں۔ ان سب کو شائد ہمیشہ بندر بنے رہنا ہے اور اس نادیدہ مگر خودساختہ پنجرے میں خود کو مقید رکھنا ہے۔ عظیم نامہ۔۔۔