نیپال کی قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سندیپ لامیچانے پر لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کا الزام ثابت ہو گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک برس تک مسلسل التوا کا شکار رہنے والے ٹرائل کے بعد کھٹمنڈو ڈسٹرکٹ کورٹ نے جمعے کو محفوظ فیصلہ سنایا۔
سندیپ لامیچانے ایک زمانے میں نیپال میں کرکٹ کے فروغ کی علامت سمجھنے جانے والے لیگ سپنر تھے اور ان کی گراؤنڈ پر کارکردگی نے اس ملک کی کرکٹ کو کافی آگے بڑھایا۔
گذشتہ برس سندیپ لامیچانے پر کھٹمنڈو کے ایک ہوٹل میں ایک 17 سالہ لڑکی کا ریپ کرنے کا الزام عائد ہوا لیکن وہ جنوری کو ضمانت پر رہا ہونے کے بعد دوبارہ ٹیم کا حصہ بنے اور بین الاقوامی مقابلوں میں شریک رہے۔
سندیپ لامیچانے کے وکیل نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں عدالت نے جمعے کو مجرم قرار دیا ہے۔ ’اگلی سماعت پر ان کی سزا کا فیصلہ سنایا جائے گا۔‘
کھٹمنڈو کی ضلعی عدالت کے ایک عہدے دار نے اے ایف پی کو فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ واقعہ رضامندی سے نہیں ہوا تھا۔‘
گذشتہ برس جب حکام نے سندیپ لامیچانے کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تو وہ جمیکا میں کیربیئن پریمیئر لیگ کھیل رہے تھے۔ اس وقت وہ واپس نہیں آئے۔
بعد میں انہیں کرکٹ ٹیم کی کپتانی سے ہٹا دیا گیا تھا۔ گرفتار ہونے کے بعد جب انہیں ضمانت پر رہائی ملی تو ان کے کھیلنے پر پابندی بھی ہٹا دی گئی تھی۔
اس کے بعد وہ نہ صرف نیپال کی قومی ٹیم کا حصہ رہے بلکہ انہوں نے ورلڈ کپ اور ستمبر میں ہونے والا ایشیا کپ بھی کھیلا۔
سندیپ لامیچانے خود پر لگائے گئے الزام کو تسلسل کے ساتھ مسترد کرتے رہے اور انہیں عوامی حمایت بھی حاصل رہی۔
اکتوبر میں سندیپ لامیچانے کے فیس بک پیج پر ان کے ایک مداح نے لکھا تھا کہ ’آپ نیپالی کرکٹ ٹیم کے ہیرو ہیں۔ ہم آپ کی مشکل سمجھ سکتے ہیں۔ اپنا خیال رکھیے۔‘
دوسری جانب الزامات کے باوجود ان کا ٹیم میں شامل رہنا بہت سے نیپالی شائقین کرکٹ کی ناراضی اور غصے کا سبب بھی بنا۔
دبئی میں ہونے والے بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں سکاٹ لینڈ کے کھلاڑیوں نے میچ کے بعد سندیپ لامیچانے سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا۔
سابق نیپالی کرکٹر کے خلاف مقدمے کا ٹرائل مکمل ہونے میں ایک برس کا عرصہ لگا اور اس دوران یہ مقدمہ ضابطے کی کارروائیوں کی وجہ سے متعدد بار التوا کا شکار بھی ہوا۔
نیپال میں دیگر ایشیائی ممالک کی طرح کرکٹ بہت زیادہ مقبول کھیل نہیں ہے لیکن 2018 میں نیپال کی ٹیم کو ون ڈے انٹرنیشنل کا درجہ ملنے کے بعد سے اس کی مقبولیت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
نیپال کی پولیس کے مطابق -222021 میں ملک میں ریپ کے 2300 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’بہت سے کیسز ایسے ہیں جو رپورٹ نہیں ہو سکے۔‘
عالمی سطح پر چلنے والی ’می ٹُو‘ مہم کے دوران صرف چند نیپالی خواتین سامنے آئی تھیں لیکن انہوں جن افراد پر الزام عائد کیے تھے انہیں بہت کم یا بالکل بھی قانونی نتائج نہیں بھگتنا پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18

۔