راحت اندوری اپنی باکمال شاعری کی وجہ سے نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہوئے۔ ایک طرف ان کا شعری اسلوب نہایت دلکش ہے تو دوسری طرف وہ جس انداز سے اشعار پڑھتے ہیں وہ بھی نہایت منفرد ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جنہوں نے انہیں دیگر شعراء سے منفرد بنایا تھا۔ ان کے اس منفرد انداز نے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ کیا۔
راحت اندوری کی پیدائش یکم جنوری 1950 کو مدھیہ پردیش ریاست کے شہر اندور میں ہوئی۔ ان کے والد رفعت اللہ قریشی ٹکسٹائل مل میں ملازم تھے جبکہ وہ ان کی چوتھی اولاد تھے۔ راحت کی والدہ کا نام مقبو النسا بیگم تھا۔ نامور شاعر راحت اندوری کی ابتدائی تعیم اندور کے نوتن اسکول میں ہوئی اور انہوں نے 1973 میں اسلامیہ کریمیہ کالج اندور سے بیچلر کی تعلیم مکمل کی۔ 1975 میں راحت اندوری نے برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے اردو ادب میں ایم اے کیا جبکہ انہیں 1985 میں مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا گیا۔
جدید غزل میں ایک منفرد مقام حاصل کرنے والے راحت اندوری کا اصل میدان غزل ہے اور انہوں نے ندرت خیال اور نکتہ آفرینی کی وجہ سے غزل کو نئے معنی دیے ہیں۔ ان کی غزل میں شعری طرز احساس اور ایسا جدید طرز احساس ملتا ہے کہ قاری کے منہ سے بے ساختہ واہ واہ نکلتی ہے۔
راحت اندوری کی شاعری اس دور میں سب سے زیادہ پسند کی جاتی ہے اور مشاعروں کو وہ اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا کرتے تھے۔ راحت اندوری مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جا تے تھے۔ ان کے مائک سے ہٹتے ہی مشاعرہ گویا ختم ہو جاتا تھا۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی والی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی۔ ان کی گھن گرج کے بعد مشاعرہ گاہ کا پنڈال سونا پڑ جاتا تھا۔
عوام و خاص اور دیگر شعراء میں ان کی منفرد حیثیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے مشاعرے میں نیا مزاج پیدا کیا۔ سامع اور شاعر کے بیچ فاصلے کو ڈھا دیا۔ گہرا تال میل فروغ دیا۔ سہل اور آسان زبان میں عمیق نکات پیش کئے۔ اچھے اچھوں کی بولتی بند کر دی۔ ترنم کے شاعروں کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کر دیا۔ بشیر بدر کی آواز کے جادو کو زائل کرنے میں راحت اندوری کا ہاتھ رہا ہے۔
راحت کی مسائلی شاعری کے آگے بشیر بدر کی سبک رومانی شاعری بجھنے لگی تھی۔ لوگ سیاسی اشاروں کناؤں سے لطف اندوز ہو نے لگے تھے۔ را حت عصری چیرہ دستیوں کو بے نقاب کر تے تھے۔ شعور و ادراک کے چراغ جلا تے تھے۔ ان کا تخاطب تیکھا ہوتا تھا۔ وہ خفتہ ضمیر انسانی کو جھنجوڑتے تھے۔ سماج کو آئینہ دکھا تے تھے۔
ان کی پرواز تخیل لامکاں ہوتی تھی۔ وہ عزم و حوصلہ کے امین بن جا تے تھے۔ ان کی شاعری تعفن طبع کے لئے نہیں زمانے کو پہچاننے کے لئے ہے۔ وہ ناصح بن کر نہیں دوست بن کر بات کرتے تھے ان کے خلوص اور درد مندی کو محسوس کیا جا سکتا تھا۔ وہ غم کے اندھیرے میں ہمت کا اجالا بانٹتے تھے۔ ان کی زنبیل میں دکھوں کا مداوا اور نسخہ کیمیا رہتا تھا۔
راحت اندوری بھارت میں عصر حاضر کے شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، انہوں نے بھارت میں اقلیت کے حق اور حکومت کی غلط پالیسیز کے خلاف بہت سے مشہور اشعار کہے ہیں۔ ان کا مشہور زمانہ شعر ہے۔
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
راحت اندوری نے عصر حاضر کے علاوہ دوسرے موضوعات پر بھی اشعار کہے ہیں۔ لیکن بھارت میں ان کی شبیہ ایک انقلابی شاعر کے طور پر اکثر دیکھی جاتی ہے۔ اگر ان کی شاعری کا مطالعہ کریں تو وہ صنف نازک سے عشق و معاشقہ کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ ہوں۔۔
اک ملاقات کا جادو کہ اترتا ہی نہیں
تری خوشبو مری چادر سے نہیں جاتی ہے
اس کے علاوہ راحت اندوری کے کچھ اشعار ایسے بھی ہیں جن کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک ترغیبی شاعر بھی ہیں، ان اشعار میں ایک امید کی کرن نظر آتی ہے۔ وہ صرف ایک جہت میں شعر کہنا پسند نہیں کرتے تھے بلکہ زندگی کے مختلف موضوعات کو اپنی شاعری میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ ہو یہ اشعار۔۔۔
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
راحت اندوری اردو شاعری کا وہ عظیم چہرہ تھے، جہاں مشاعروں میں ان کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کا ضامن ہوا کرتی تھی۔ ان کی انداز شاعری کا ہر شخص دیوانہ تھا۔
اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
یہ بھی پڑھیں:
یہ وہ نظم تھی جس نے راحت اندوری کو ہر عام و خاص کی زبان پر لا دیا تھا۔ پڑھے لکھے لوگ ان کی ادائیگی بھی کرتے تھے، وہیں غیر تعلیم یافتہ اس نظم کو سن کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے۔ ان کے اشعار تغیل سے بالا تر ہوا کرتے تھے۔
میرے حُجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو لے آؤ زمیں پر رکھ دو
اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو
راحت اندوری کا کسی مشاعرے کے اسٹیج پر موجود ہونا ہی اس بات کا عکاس ہوتا تھا کہ یہ مشاعرہ نہ صرف معتبر اور اہمیت کا حامل ہے بلکہ کامیاب بھی ہوتا تھا۔ اردو ادب کا یہ مشہور و معروف چراغ کورونا جیسی مہلک وباء لاہک ہونے سے 11 اگست 2020 کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18