امارات الیوم کے مطابق متاثرہ نے اپنے دعوے میں انشورنس کمپنی، نجی ہسپتال اور ڈاکٹر کے خلاف غیر ضروری سرجری پر 17 ملین 750 ہزار درھم کا ہرجانے کا مطالبہ کیا تھا۔
متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ’ ہسپتال میں جو آپریشن کیا وہ غلط تھا۔ عدالت نے ابتدائی سماعت میں انشورنس کمپنی کو غیر متعلقہ قرار دیتے ہوئے اسے مقدمے سے خارج کردیا تھا‘۔
جوابی دعوے میں ہسپتال کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ ’خاتون نے جس آپریشن کےلیے کہا تھا اس کا ان کے پاس ثبوت موجود ہے‘۔
ہسپتال میں آنے سے قبل کسی اورہسپتال میں بھی آپریشن کرانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا جو تحریری شکل میں ریکارڈ میں موجود ہے۔
ابتدائی عدالت نے کیس متعلقہ طبی کمیٹی کو ارسال کردیا جہاں معاملے کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد کمیٹی نے اپنی سفارشات سے عدالت کو مطلع کیا۔
ڈاکٹر کو غلطی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ’ ڈاکٹر کی ذمہ داری تھی کہ وہ آپریشن سے قبل مریضہ کی ہسٹری دیکھنے کے بعد ان سے ملاقات کرکے تمام باریک پہلوں سے انہیں مطلع کرتا جس کے بعد تحریری رضا مندی حاصل کی جانی چاہئے تھی‘۔
طبی کمیٹی کا مزید کہنا تھا کہ’ ڈاکٹر اور ہسپتال انتظامیہ نے انشورنس کمپنی کی جانب سے دی گئی سفارشات اور اس سے قبل دوسرے ہسپتال کی جانب سے اسی آپریشن کی موجودگی کو نظر انداز کیا جس پروہ غلطی کے مرتکب قرار پائے‘۔
خاتون نے عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ بھی پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ’وہ آپریشن کے بعد اب ساری زندگی ماں نہیں بن سکتی‘۔
علاوہ ازیں ہارمونز کی خرابی کے باعث اسے مستقل طورپر مختلف نوعیت کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑے گا