برسوں قبل نو برس کی راکھی اور چھ برس کے ان کے بھائی ببلو آگرہ کے ریلوے سٹیشن سے جب ایک ٹرین پر سوار ہو کر ایک انجانی منزل کی طرف روانہ ہوئے تو انھیں بالکل نہیں معلوم تھا کہ وہ اپنی ماں اور پھر ایک دوسرے سے برسوں کے لیے بچھڑنے والے ہیں۔
تیرہ برس بعد آگرہ کے ایک کارکن کی مدد سے یہ تینوں آج ایک بار یکجا ہو گئے ہیں اور انھیں یقین نہیں ہو رہا ہے کہ یہ سچ ہے۔
راکھی اب 22 برس کی ہو چکی ہیں اور دلی کے نزدیک ایک شاپنگ مال میں کام کرتی ہیں ۔ ببلو 19 سال کے ہیں۔ وہ بنگلور میں ایک پرائیوٹ فرم میں ملازم ہیں۔
مان نیتو کماری آگرہ کے ایک گاؤں میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہیں۔ جب وہ چھوٹے تھے تو ان کے والد فوت ہو گئے۔ راکھی بُدھ کی رات آگرہ پہنچیں اور ببلو جمعرات کو دو پہر بنگلور سے آگرہ پہنچے۔ جس وقت وہ اپنی ماں کے پاس پہنچے تو انھوں نے انھیں گلے لگا لیا اور بہت دیر تک پھوٹ پھوٹ کر روتی رہیں۔
اس سے پہلے جب راکھی کل رات پہنچی تھیں تب بھی یہی منظر تھا۔ ببلو نے بی بی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بہت عجیب سا لگ رہا ہے۔ یہاں میری ماں ہیں، میرے نانی نانا ہیں، سبھی رشتے داروں سے مل رہا ہوں، سبھی خوشی سے رو رہے ہیں۔ یقین نہیں ہو رہا ہے کہ سب سچ ہے۔‘
ببلو نے اپنی بہن اور ماں اور قریبی رشتے داروں کے ساتھ باہر کھانے پر لے جانے کا پلان کیا ہے۔ ‎
یہ واقعہ کسی فلم کی کہانی طرح ہے جس کا انجام ملن کی خوشی پر ہوا ہے۔
سنہ 2010 میں یہ خاندان آگرہ میں رہا کرتا تھا۔ ایک روز راکھی نے اپنے گھر کے سارا سامان پھیلا دیا تھا اور کچھ برتن وغیرہ بھی ان سے ٹوٹ گئے تھے۔
ماں نیتو جب کام سے لوٹیں تو انھوں نے راکھی کو بری طرح پیٹا۔ نو برس کی راکھی اس بات پر اتنا ناراض ہوئیں کہ انھوں نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے چھ برس کے اپنے بھائی ببلو کو اپنے ساتھ لیا اور آگرہ کے ریلوے سٹیشن پر پہنچ گئیں۔ وہاں جو بھی پہلی ٹرین ملی اس پر دونوں سوار ہو گئے۔ یہ ٹرین جب میرٹھ میں رکی تو یہ دونوں اتر گئے۔ یہاں سے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدلنے والی تھی۔
اس کہانی میں پولیس کی انٹری
بچے چھوٹے تھے اوروہ سٹیشن پر بھٹک رہے تھے۔ پولیس کو ان کے بارے میں شک ہوا۔ بچوں سے ان کے والد کا نام اور گاؤں وغیرہ کے بارے میں پوچھا گیا۔ لیکن وہ کچھ نہیں بتا سکے۔
پولیس نے نو برس کی راکھی کو وہاں سے دلی کے نزدیک لڑکیوں کے ایک سرکاری یتیم خانے میں ڈال دیا اور چھے سال کے ببلو کو لکھنؤ کے یتیم خانے میں بھیج دیا۔
دونوں کے درمیان اب کوئی رابطہ باقی نہیں رہا۔ دونوں یتیم خانوں میں ان دونوں کے پتے اور ولدیت غلط لکھ دی گئی۔ دونوں ایک دوسرے سے دور زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔
جب بچے شام تک گھر نہیں لوٹے تو ماں ںیتو نے 16 جون 2010 کو آگرہ کے جگدیش پورہ تھانے میں اپنے دونوں بچوں کے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کرائی اور دونوں کا پاسپورٹ سائز کا فوٹو جمع کرایا۔ ماں ہر جگہ اپنے بچوں کو ڈھونڈتی رہیں۔
برسوں گزرنے کے بعد ان کی آس ٹوٹ گئی اور وہ اپنے غم لیے ہو ئے چپ رہنے لگیں لیکن اپنے دونوں بچوں کو ایک لمحے کے لیے بھلا نہ سکیں۔
ادھر راکھی میرٹھ میں اپنے یتیم خانے میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور بھائی ببلو لکھنؤ میں پرورش پا رہے تھے۔ اس نے اپنے یتیم خانے میں ایک خاتون اہلکار سے اپنی بہن کا ذکر کیا تھا۔
انھوں نے اس کی تلاش شروع کر دی۔ سنہ 2018 میں ببلو کو اپنی بہن مل گئیں۔ اس وقت اس نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے بات کی۔
جب وہ اٹھارہ برس کے ہو گئے اور جب انھیں یتیم خانے سے باہر آنے کی اجازت ملی تو وہ گذشتہ برس اکتوبر میں سب سے پہلے اپنی بہن سے آکر ملے۔ بہن راکھی کو بھی اپنی ماں کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔ بس ذہن میں کچھ دھندلی سی یادیں تھیں۔
اس ملاقات کے بعد راکھی دلی کے نزدیک ’گڑوگاؤں‘ کے ایک مال میں کام کرنے لگیں اور ببلو ملازمت کے لیے بنگلور چلے گئے۔ لیکن ان کے ذہن میں ماں کا تصور بسا رہتا۔
وہ سوشل میڈیا پر لاپتہ لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے لگے۔ انھوں نے دوستوں سے مدد لی۔ اس کے کسی دوست نے بتایا کہ آگرہ میں رمیش پارس نام کے حقوق انسانی کے ایک کارکن ہیں، جو بچوں کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں۔
ببلو نے ان کا نمبر وغیرہ تلاش کر کے ان سے رابطہ قائم کیا۔ یتیم حانے میں داخلے کے وقت جو پتہ لکھایا گیا تھا اس میں بلاس پور لکھا ہوا تھا، جو چھتیس گڑھ کا تھا۔
نریش پارس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے بلاس پور میں گمشدہ بچوں کے بارے میں جو بھی معلومات موجود تھیں سب حاصل کیں لیکن وہ ان دونوں بچوں سے میل نہیں کھاتی تھیں۔‘
نریش پارس نے بتایا کہ ’میں نے ببلو سے پوچھا کہ ان کے ذہن میں ریلوے سٹیشن کی کوئی چیز یا یاد باقی ہے۔ انھوں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد بتایا کہ وہاں ایک پرانا ریل انجن کھڑا ہے، جو مجھے بہت اچھا لگا تھا۔ میں نے آگرہ سٹیشن کے بارے میں پرانی خبروں کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ اور مجھے پتا چلا کہ آگرہ کینٹ سٹیشن پر واقعی ایک پُرانا انجن کھڑا رہتا تھا۔ یہ ایک بڑا سراغ تھا۔ میں نے آگرہ کے پولیس تھانوں میں سنہ 2010 کی گمشدہ بچوں کی رپورٹس نکالنی شروع کیں۔‘
نریش پارس کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب انھوں نے نیتو کماری کی درج کرائی گئی رپورٹ جگدیش پورہ تھانے میں مل گئی۔ اب مجھے راکھی اور اور ببلو کی ماں کا پتا چل گیا تھا۔
ان کے مطابق ’مجھے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ ان کی ماں کون ہیں۔‘ ان کا پتہ بلاس گنج کا تھا۔ وہاں وہ کرائے پر رہتی تھیں، جہاں سے وہ برسوں پہلے کہیں اور چلی گئی تھیں۔ ببلو اور راکھی نے یہ بھی بتایا تھا کہ ان کی ماں کی گردن پر جلے کا نشان تھا۔ ان کے بارے میں پتہ کرتے کرتے نریش پارس نے بالآخر گذشتہ دنوں شاہ گنج علاقے میں نیتو کماری کو ڈھونڈ نکالا۔
وہ اب اپنی مان کے گھر رہ رہی تھیں۔ پارس نے انھیں ان کی بیٹی اور بیٹے کے بارے میں بتایا۔ وہ خوشی سے پاگل ہو گئیں۔
نریش پارس نے اسی وقت راکھی اور ببلو سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے نیتوسے بات کرائی۔ وہ لمحہ نیتو کے لیے ایک نئی زندگی جیسا لمحہ تھا۔ شروع میں ان کے سارے جذبات آنسوؤں کی زبانی بیان ہوئے۔ آس پاس کھڑے ہوئے گاؤں کے سبھی لوگ بھی اشک بار ہو گئے۔ ماں نے 13 برس سے بچھڑے ہوئے اپنے بچوں کو فوراً پہچان لیا۔
بیٹی راکھی اپنی ماں کا پتہ حاصل کرتے ہی بُدھ کی رات اپنی ماں سے ملنے پہنچ گئیں۔
جمعرات کو ببلو بھی بنگلور سے ٹرین کے ذریعے آ چکے تھے۔ جس وقت آج ببلو اپنی ماں سے ملنے پہنچے پورا گاؤں انھیں خیر مقدم کرنے کے لیے وہاں موجود تھا۔
نیتو نے اپنے دونوں بچوں راکھی اور ببلو کو تیرہ برس بعد دوبارہ پا لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18