پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان سمیت پارٹی کے کئی رہنماؤں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہو گئے ہیں جب کہ مسلم لیگ کے بانی و سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے دو حلقوں سے انتخابی فارمز منظور کر لیے گئے ہیں۔
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع ہونے کے بعد ان کی منظوری یا مسترد کیے جانے کا مرحلہ جاری ہے۔ اب تک مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت کئی جماعتوں کے امیداروں کے نامزدگی فارمز منظور ہو چکے ہیں جب کہ تحریکِ انصاف کے کئی رہنماؤں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔
لاہور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاء الرحمٰن کے مطابق تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان نے لاہور، اسلام آباد اور میانوالی سے قومی اسمبلی کی تین نشستوں کے لیے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے جن پر اعتراضات سامنے آئے تھے۔
لاہور کے حلقہ این اے 122 اور میانوالی کے حلقہ 89 کے ریٹرننگ افسران نے ہفتے کو عمران خان کے کاغذاتِ نامزدگی پر اٹھنے والے اعتراضات کا فیصلہ سناتے ہوئے نامزدگی فارمز مسترد کر دیے ہیں۔
دونوں حلقوں میں اعتراضات کنندگان نے اعتراض اٹھایا تھا کہ عمران خان سزا یافتہ اور نااہل ہیں، اس لیے وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔
پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے بھی این اے 151 ملتان اور این اے 214 تھرپارکر سے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی اور صاحبزادی مہربانو قریشی کے بھی کاغذاتِ نامزدگی ملتان سے مسترد کر دیے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کے این اے 130 لاہور سے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔
پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق پی ٹی آئی کے صوبائی صدر علی امین گنڈاپور کے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہو گئے۔ اسی طرح سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے این اے 263، اعظم سواتی کے این اے 15 مانسہرہ اور علی محمد خان کے این اے 23 سے نامزدگی فارمز مسترد ہوئے ہیں۔
اسی طرح کوہاٹ کے حلقے این اے 35 سے تحریک انصاف کے رہنما شہریار آفریدی اور این اے 50 اٹک سے ذوالفقار بخاری کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوئے ہیں۔
مردان سے قومی و صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر پی ٹی آئی کے ڈویژنل چیئرمین عاطف خان کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد کیے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے مرکزی قائدین کے کاغذاتِ نامزدگی ایسے موقع پر مسترد ہوئے ہیں جب پی ٹی آئی پہلے ہی یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ اسے لیول پلئینگ فیلڈ نہیں دی جا رہی۔ تاہم نگراں حکومت کا مؤقف ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں سیاسی سرگرمیوں کے لیے آزاد ہیں۔
تحریکِ انصاف نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ عمران خان سمیت پارٹی کے تقریباً 90 فی صد اہم رہنماؤں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں اور اس کے مقابلے میں دیگر جماعتوں کے سو فی صد نامزدگی فارمز منظور ہوئے ہیں۔
پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا ہے کہ ریٹرننگ افسران، پولیس، نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں نواز شریف کے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔
ہفتے کو ہی خوشاب کے حلقہ این اے 87 سے پی ٹی آئی امیدوار عمر اسلم اعوان اور حسن اسلم اعوان کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کی نشست پی پی 172 سے پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 26 بونیر سے سالاج جہان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے لاہور کے حلقہ این اے 130 اور مانسہرہ کے حلقہ این اے 15 سے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہو گئے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے قومی اسمبلی تین حلقوں لاہور، کراچی اور قصور سے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہوئے ہیں۔ اسی طرح مریم نواز کے این اے 119 لاہور اور حمزہ شہباز کے این اے 118 لاہور سے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہو گئے ہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے کاغذات نامزدگی لاہور کے حلقہ این اے 127 سے منظور ہو گئے جب کہ اسی حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار اعجاز چوہدری کے نامزدگی فارمز مسترد کر دیے گئے ہیں۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور ان کے بھتیجے راشد شفیق کے این اے 57 سے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہو گئے ہیں۔
استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کے ملتان کے حلقہ این اے 149، علیم خان کے این اے 118 اور این اے 119 لاہور سے نامزدگی فارمز منظور ہوئے ہیں۔
اختر مینگل کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد
خضدار سے وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضیٰ زہری کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد کر دیے گئے ہیں۔
اختر مینگل نے کوئٹہ سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے۔
ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے مطابق سردار اختر مینگل دبئی کی نجی کمپنی میں اقامہ ہولڈر ہیں اور انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی میں اقامہ ظاہر نہیں کیا جس کی بنیاد پر ان کے نامزدگی فارمز مسترد کیے گئے۔