غزہ میں جنگ شروع ہونے سے پہلے محمود الداؤدی نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ان کی دکان میں دھول سے اٹے ریڈیو سیٹس کی طلب اتنی بڑھ جائے گی جو ان کے صارفین کے لیے بیرونی دنیا سے رابطے کا ایک قیمتی ذریعہ بن جائے گا۔
بجلی کی بندش طویل عرصے سے روزمرہ کی زندگی کا حصہ رہی ہے لیکن اسرائیل کی جانب سے بجلی اور ایندھن کی سپلائی منقطع کرنے کے بعد محصور علاقے کے 2.4 ملین افراد اب طویل گھنٹوں تک بجلی کی بندش کا شکار ہیں۔
حماس کے زیرِ انتظام علاقے کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کے مسلسل حملے میں غزہ کے 19,450 سے زیادہ باشندے جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
اسرائیلی اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کی تعداد کے مطابق 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں میں جنوبی اسرائیل میں تقریباً 1,140 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد اسرائیل نے اپنی تباہ کن فضائی اور زمینی کارروائی شروع کر دی۔
اب کمپیوٹر یا ٹیلی ویژن سیٹ لگانا، فون کو ری چارج کرنا یا انٹرنیٹ تک رسائی جنریٹر یا سولر پینلز کے بغیر ناممکن ہے اور یہ عیاشی غزہ کے چند ہی باشندے برداشت کر سکتے ہیں۔
لیکن خبروں سے باخبر رہنے کے لیے بیٹری سے چلنے والا ریڈیو ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔
داؤدی نے کہا، "ہمارے پاس پورا ذخیرہ تھا لیکن جنگ کے پہلے ہفتے سے ہی یہ ہماری ضرورت سے کم رہا ہے۔”
انہوں نے کہا، فون اور انٹرنیٹ کی بندش کے ساتھ "ریڈیو ہی یہ جاننے کا واحد طریقہ ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔”
انہوں نے علاقے کے جنوبی سرے پر واقع رفح میں اپنے اسٹور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیٹری کی طویل مدت ایک اور فائدہ ہے۔
جنگ سے پہلے ایک ریڈیو کی قیمت تقریباً 25 شیکلز ($7) تھی — جبکہ اب یہ تقریباً 60 شیکلز ($16) میں فروخت ہوتے ہیں۔
33 سالہ نوجوان نے کہا، "ہم نے ٹوٹے ہوئے ریڈیو بھی دوبارہ فروخت کر دیئے ہیں جو لوگ ہمیں واپس کر گئے تھے۔”
جب ریڈیو سیٹ شیلف سے غائب ہو گئے تو صارفین بلٹ ان ریڈیوز اور ٹارچز والے پرانے ٹیلی فونز کی درخواست کرنے لگے جو رات کو ایک خوش آئند مدد فراہم کرتے ہیں۔
داؤدی نے اے ایف پی کو بتایا، "اب ہمارے پاس فون ختم ہو رہے ہیں۔”

پیچھے کی طرف واپسی
چونکہ صرف محدود انسانی امداد علاقے میں پہنچ رہی ہے تو نئے اسٹاک کا آرڈر دینا ناممکن ہے۔
حسین ابو ہاشم نے کہا، "لوگ باخبر رہنا اور سننا چاہتے ہیں کہ گولہ باری کہاں ہو رہی ہے اور اپنے خاندانوں کی قسمت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔” ان کی دکان پر بھی ریڈیو ختم ہو چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک 1.9 ملین فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں جو کہ آبادی کا تقریباً 85 فیصد ہیں۔
ان میں سے کئی اب اس علاقے کے جنوب میں عارضی خیموں میں رہ رہے ہیں جہاں انہیں بنیادی سامان کی کمی ہے۔
ام ابراہیم نے جنوبی شہر خان یونس میں اے ایف پی کو بتایا، "مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے، حملے کہاں ہو رہے ہیں، کن گھروں کو نشانہ بنایا گیا، کون زندہ ہے، کون شہید ہو چکے ہیں۔”
انہوں نے کہا، "ہم غزہ میں کہیں سے بھی خبریں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔”
"جب میرے ریڈیو کی بیٹری ختم ہو جاتی ہے تو میں کیمپ میں گھومتی اور دوسرے لوگوں کے ریڈیو سنتی ہوں۔”
بی بی سی عربی اور الجزیرہ جیسے سٹیشنز نے بے گھر لوگوں کو خبروں سے باخبر رکھنے میں مدد کے لیے خصوصی چینلز شروع کیے ہیں۔
75 سالہ عبرانی بولنے والے محمد حسونہ جیسے غزہ کے کچھ باشندے اسرائیلی ریڈیو سٹیشنز سے خبریں لینے کا انتظام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے ان کے لیے "اسرائیلی سمت سے” تازہ ترین معلومات حاصل کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا، "میں اپنے بچوں اور ہمسایوں کو باخبر رکھتا ہوں۔”
اپنے خیمے کے باہر 37 سالہ صلاح زوروب اپنے موبائل فون پر ریڈیو سٹیشن سن کر وقت گذارتے ہیں۔
انہوں نے کہا، "دنیا جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے لیکن یہاں غزہ میں ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔”
"وہ ہمیں پتھر کے زمانے میں واپس لے جائیں گے۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18