غزہ میں حماس کے زیر انتظام محکمہ صحت کے مطابق محصور علاقے پر اسرائیلی حملوں میں اب تک 21 ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں اور ساڑھے چون ہزار سے ذیادہ لوگ زخمی ہیں۔
ادھر بچوں کی فلاح و بہبود کے عالمی ادارے یونیسیف کے مطابق اب تک ہزاروں فلسطینی بچے ہلاک ہوچکے ہیں اور جو بچ گئے ہیں ان کے لئے خوراک، پانی، پناہ گاہ اور بیماریوں اور صحت کی سہولتوں کی کمی ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
یونیسیف کے مطابق اسرائیل اور حماس کی اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر عورتیںٕ اور بچے ہیں۔اور مسلسل فضائی حملوں سے بچ جانے والوں کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔
دس سالہ نسیم موہرا کو گردے کی بیماری کے باعث ہفتے میں چار روز ڈائیلاسز کی ضرورت پڑتی ہے ۔ تاہم جنگ کے آغاز کے بعد سے نہ صرف اس کا علاج متاثر ہوا ہے بلکہ اب اس کے والدکو بھی اسرائیلی فوج نے گرفتار کر لیا ہے ۔
نسیم موہرا اکیلے ہیں، ان کا ایک پڑوسی انہیں اسپتال لا یا ہے۔ دس سال کی عمر میں بیماری کے ساتھ ساتھ جنگ کے المیوں کا بھی حوصلہ مندی سے مقابلہ کر رہے ہیں۔
وہ اپنی بھولی بھالی آواز میں اسرئیلی فوجیوں کے ہاتھوں اپنے والد کی گرفتاری کی کہانی کچھ اس طرح سناتے ہیں۔
"انہوں نے ہمیں بیٹھنے کو کہا اور پھر چلنے کو ۔ہم چلنے لگے اور تھک گئے ۔ پھر انہوں نے میرے ابا کو گرفتار کرلیا اور لوگ مجھے یہاں لے آئے۔ ہفتے میں چار دن ڈائیلسز کے بجائے اب میری صرف دو دن اور دو گھنٹے ڈائیلسز ہو رہی ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ جنگ بند ہو اور ہم اپنے گھروں کو واپس جاسکیں۔”
آپ اس ویڈیو میں ان کی زبانی یہ سن سکتے ہیں۔
یہ بچہ اپنی معمول کی زندگی کو لوٹنا چاہتا ہے، لیکن غزہ کے لاکھوں انسانوں کی طرح نسیم موہرہ کا مستقبل بھی نامعلوم ہے۔ "
حال ہی میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندوں نے غزہ کے سب سے بڑے ہسپتال الشفاء اور دیگر اسپتالوں کا دورہ کیا اور ادویات اور ضرورت کا دوسرا سامان پہنچایا.
اس دورے کے بعد عالمی ادارے کےاہل کارشان کیسی نے وہاں کی اتہائی تشویشناک صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی وہاں مکمل بدحالی کا عالم ہے ، لوگ فرشوں پر پڑے ہیں، چلنا تقریبا ناممکن ہے۔
وہ کہتے ہیں انتہائی سنگین کیسز، ڈاکٹرز اور نرسیں بالکل سنبھال نہیں پارہے۔ ’’لوگ التجا کر رہے ہیں کہ انہیں اپنے مرتے ہوئے بیٹے بیٹیوں کے لیے خون کی ضرورت ہے ۔یہ چھوٹی سی طبی ٹیم اتنے بہت سے لوگوں کی مدد کے لئے کچھ بھی نہیں کرسکتی ۔ مکمل افراتفری ہے۔ ‘‘
عالمی تنظیم ڈاکٹرز ودآوٹ بارڈرز کی غزہ سے لوٹنے والی ایک ڈاکٹر نے نیوز نیٹ ورک این پی آر کو بتایا کہ ایک اور دو سال تک کے بچوں کے بازو اور ٹانگیں کاٹنی پڑ رہی ہیں۔، بہت سے بچے زندگی بھرکیلئے معذور ہوچکے ہیں، یتیم ہیں اور کوئی جگہ نہیں ہے جہاں وہ پناہ لے سکیں۔
ایک اور بچےامیر الزہر نے جو رفح کا رہائشی ہے بتایا کہ”یہ میرے والد کی کارٹ تھی۔ وہ جنگ کے دوران مارے گئے۔ وہ اسے مچھلیاں لانے اور فروخت کے لیے استعمال کرتے تھے، اور اب ہم اسے میٹھا پانی پہنچانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18