مدھیہ پردیش انڈیا کے ضلع دھر کے ایک تاریخی سیاحتی مرکز کے طور پر مشہور ہے۔ ’کاکر بھیرو‘ اس ضلع سے تعلق رکھنے والے پارلیا گاؤں کے باشندوں کا مذہبی دیوتا ہے۔ وہ طویل عرصے سے ’ککڑ بھیرو‘ کی پوجا کرتے آ رہے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ پتھر سے کٹا ہوا ککڑ (جس کا مطلب ہے زمین کی حد) بھیرو(خدا) زمین اور مویشیوں کی حفاظت کرتا ہے اور مصیبتوں کو دور کرتا ہے۔
لیکن بھیل برادری کے بہت سے لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنی کھیتی کی سرحد پر جس گول پتھر چٹان کی پوجا کر رہے ہیں وہ دراصل ڈائنوسار کے انڈے کا فوسل ہے۔
پارلیا کی ایک رہائشی ویسٹا منڈولائی نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’کچھ دن پہلے تک ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہ پتھر دراصل ڈائنوسار کے انڈے کا فوسل ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہم کتنے سالوں سے ککڑ بھیرو کی پوجا کر رہے ہیں۔‘
آس پاس کے کچھ علاقوں میں ککڑ بھیرو کو ’وائلٹ بابا‘ سمجھ کر بھی پوجا جاتا ہے۔ ہمارے گاؤں کے چند لڑکے کہیں سے گول پتھرلاتے تھے جو دوسرے پتھروں سے مختلف دکھائی دیتے تھے اور ان کی پوجا کرتے تھے۔ بہت کم کسی کو معلوم تھا کہ وہ دراصل ڈائنوسار کے فوسل انڈے تھے۔‘
ان انڈوں کی حقیقت کا کیسے پتا چلا؟
’وادی نرمادا‘ کے علاقے میں طویل عرصے سے کھدائی کی جارہی ہے۔ ڈائنوسار کے فوسلز گھوںسلوں کی جگہیں‘، ’گھونسلے‘، ان کے انڈوں کے فوسلز، شارک کے دانتوں کے فوسلز اور بہت سے دوسرے آثار کو ماہرین حیاتیات نے برآمد کیا ہے۔
ان میں سے ایک وشال ورما ہیں جو پیشے سے فزکس کے استاد ہیں۔ اب تک وہ 256 ڈائنوسار کے انڈے برآمد کر چکے ہیں۔
وشال اور ان جیسے دیگر ماہرین حیاتیات کی انتھک کوششوں کی وجہ سے لوگوں کو اس علاقے کی آثار قدیمہ اور ارضیاتی اہمیت کا علم ہوا ہے۔
پارلیا اور ملحقہ علاقوں سے برآمد ہونے والے فوسلز نے ویسٹا سمیت بھیل برادری کے بہت سے لوگوں کو چونکا دیا ہے۔
وہ جانتے ہیں کہ گول پتھر جس کی نسل در نسل پوجا کی جاتی ہے، دراصل ڈائنوسار کی ٹائٹانو-سٹارک نسل کا انڈا ہے۔
کچھ دن پہلے بیربل ساہنی انسٹی ٹیوٹ آف پیلیو سائنسز (بی ایس آئی پی) کے ماہرین کی ایک ٹیم نے دھار ضلع کا دورہ کیا۔ اس کا مقصد علاقے سے برآمد ہونے والے فوسلز اور دیگر آثار قدیمہ کے نوادرات کو محفوظ کرنا تھا۔
اس کے ساتھ ہی ان کا مقصد یونیسکو کو ایک تجویز پیش کرنا تھا کہ دھر ضلع کی شناخت ’گلوبل جیو پارک‘ کے طور پر کی جائے۔
اس وقت تنظیم کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بی ایس آئی پی تھے۔ مہیش جی ٹھاکر، ڈاکٹر شلپا پانڈے، مدھیہ پردیش ایکو ٹورازم بورڈ کی سی ای او شمیتا راجورا، محکمہ جنگلات کے دیگر سرکاری افسران اور وشال ورما شامل ہیں۔
اس حوالے سے شلپا پانڈے نے بی بی سی بنگلہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے بیربل ساہنی انسٹی ٹیوٹ آف پیلیو سائنسز کے سینٹر فار پروموشن آف جغرافیائی ورثہ اور جیو ٹورازم کے ماہرین حیاتیات کی جانب سے رواں ماہ دھر اور اس سے ملحقہ حصے کا دورہ کیا۔ اس سے قبل ڈائنوسار کے 256 انڈے ملے تھے اور ان کا اندراج بھی کیا گیا تھا۔‘
ان کے مطابق ’مدھیہ پردیش میں منابر کے قریب کئی جگہیں ہیں، جیسے اکھر، کنیا پور، وغیرہ جہاں گھونسلے بنانے کی جگہ ملی ہے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ دھر کے علاقے میں گذشتہ جون تک 20 نئے گھونسلے بھی ملے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ فوسلز اور جن مخصوص علاقوں سے یہ ملے ہیں ان کے تحفظ کے لیے مقامی لوگوں کا تعاون بالکل ضروری ہے۔ اس بارے میں قبائلیوں سے بات کرتے ہوئے انھیں معلوم ہوا کہ برآمد ہونے والے ڈائنوسار کے انڈوں کے فوسلز کو وہاں کے لوگ ’ککر بھیرو‘ کے نام سے پوجتے ہیں۔
ڈاکٹر شلپا پانڈے کے مطابق ’یہ پوجا یہاں نسلوں سے کی جا رہی ہے۔ دیوالی کے دوران، یہاں کے لوگ اپنی زمین کے ایک حصے پر ککڑ بھیراب لگاتے ہیں اور حاملہ مویشیوں کو چٹان پر چھلانگ لگانے کو کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حاملہ جانور کے مستقبل کے بچے صحت مند ہوں گے، اس طرح مالک کا مستقبل محفوظ ہوگا۔ ایک ہی وقت میں، تمام باڑ کو کاٹ دیا جائے گا۔
اس کے بعد انھوں نے وہاں کے مقامی لوگوں کو سمجھانا شروع کر دیا۔ ان کے الفاظ میں ’جس علاقے سے ڈائنوسار کے انڈے ملے تھے، اس کی صرف آثار قدیمہ اور ارضیاتی قدر ہے، لیکن ایسا نہیں۔ نیز یہ مقامات تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے حامل ہیں۔‘
بی ایس آئی پی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹھاکر نے بتایا کہ کس طرح محلے کے مکینوں سے بات کرنے سے انھیں علاقے کی آثار قدیمہ کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ ’کئی ماہر ٹیمیں نرمادا وادی کے علاقے میں پہلے کام کر چکی ہیں۔ اس علاقے کی آثار قدیمہ کی اہمیت ہے۔‘
ان کے مطابق ’یہی وجہ ہے کہ ہم ٹی ریکس (T-Rex) کے بارے میں اتنا سنتے ہیں۔ لاکھوں سال پہلے وادی نرمادا میں ایک گوشت خور ڈائنوسار تھا، جسے ’راجا سورس نورمادینس‘ کہا جاتا تھا۔ دنیا کو اس کے بارے میں بتانا ہمارا فرض ہے۔‘
ان کے مطابق اگر یونیسکو ضلع دھر کو ’گلوبل جیو پارک‘ کے طور پر نامزد کرنے کی تجویز سے اتفاق کرتا ہے تو ہمارا خواب پورا ہو جائے گا۔ صرف یہی نہیں، اس علاقے اور وہاں پائے جانے والے فوسلز کو محفوظ کرنا بھی ممکن ہو گا۔ مقامی لوگوں کا تعاون ممکن نہیں۔‘
مدھیہ پردیش ایکو ٹورازم بورڈ کی سی ای او شمیتا راجورا نے بھی اس کی تائید کی اور کہا کہ ’ہمارے پاس اس خطے سے متعلق بہت خاص منصوبے ہیں۔ اور اس سے نہ صرف دنیا میں انڈیا کی ساکھ بڑھے گی بلکہ مقامی لوگوں کی حالت میں بھی بہتری آئے گی۔ سیاحت کی صنعت میں بہتری آئے گی، لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔‘
مقامی لوگوں کو سائنس کی وضاحت کرنا
وشال ورما کے مطابق، جو سنہ 2007 سے آثار قدیمہ پر کام کر رہے ہیں، مقامی لوگ ککڑ بھیرو کی آثار قدیمہ کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اتنے ہی خواہشمند تھے۔
انھوں نے کہا کہ گاؤں والوں کو قائل کرنا اتنا مشکل نہیں تھا۔ پانچ سال پہلے، ہم نے پہلی بار محسوس کیا تھا کہ مقامی لوگ جس کو ککڑ بھیرو کے نام سے پوجتے ہیں وہ دراصل ایک ڈائنوسار کا انڈا ہے۔
ان کے مطابق ’میرے ساتھ کام کرنے والے بہت سے عام لوگ تھے۔ لیکن انھیں سمجھانے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ اور ان کے مذہبی نظریات کو کسی بھی طرح سے ٹھیس نہیں پہنچی۔ اس کے بجائے وہ یہ سب جاننے کے لیے متجسّس تھے۔ وہ مختلف چیزیں جاننا چاہتے تھے۔‘
پارلیا کی رہنے والی ویستا منڈولائی نے ضلع دھر میں ملازمت کے دوران سب سے پہلے وشال ورما کی ٹیم میں شمولیت اختیار کی۔
ان کے مطابق ’یہ بہت سال پہلے کی بات ہے، جب میں اس کے کام کو دیکھنے کے لیے متجسس تھا۔ وہ قریبی جگہ پر گھونسلے کی جگہ تلاش کر رہا تھے۔ اس وقت میں نے بھی اس ٹیم کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔‘
ویسٹا منڈولائی کے مطابق آہستہ آہستہ بہت سی نئی چیزیں سیکھیں۔ بہت سارے خیالات بدل گئے۔ جیسا کہ مجھے پتہ چلا، کاکڑ بھیرو ایک فوسلائزڈ ڈائنوسار کا انڈا ہے۔‘
اب وہ مدھیہ پردیش کے باغ میں ڈائنوسار نیشنل پارک میں سکیورٹی گارڈ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
’ڈائنوسار انسان‘
وشال ورما کا کام مختلف تحقیقی مقالوں میں شائع ہوا ہے۔ بہت سے لوگ انھیں ’فوسیل مین‘ یا ’ڈائنوسار مین‘ بھی کہتے ہیں۔
جب وشال ورما نے پہلی بار فوسلز پر کام شروع کیا تو وہ جوان تھے۔ والد کی ملازمت کی وجہ سے ان کا بچپن کان کنی کے علاقے میں گزرا۔
ایک دن وہ اپنے والد کے ساتھی کھدائی میں مصروف تھے۔ اس وقت وہاں سے خول کے ٹکڑے ملے تھے، جن کی آثار قدیمہ میں بہت اہمیت ہے۔ اس کے بعد انھیں آثار قدیمہ میں بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔
انھوں نے دھر کے مختلف حصوں میں ’اِکلائی‘ کی تلاش شروع کی۔ ایک موقع پر انھوں نے ان ماہرین سے بات چیت کی جو وادی نرمادا میں تحقیقی کام پر تھے او ڈائنوسار کے فوسلز کی تلاش میں تھے۔
آہستہ آہستہ انھوں نے جمع شدہ فوسلز کو ظاہر کرنے کا اہتمام کیا، جس کا مقصد طلبہ کی دلچسپی کو بڑھانا تھا۔
ان کے مطابق ’مجھے شارک کے دانتوں سمیت بہت سی چیزیں ملی ہیں۔ اب میں نے اس کام میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔
پھر میں اس کام میں اپنے سکول کے طالب علموں کا ساتھ دیتا ہوں۔ ہمیں مجموعی طور پر ڈائنوسار کے 100 انڈے ملے، جنھیں محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے کر دیا گیا۔
برآمد ہونے والے اگلے چند ڈائنوسار انڈے حکومت کو دیے جاتے ہیں، جن کا انتظام ایک ڈائنوسار پارک میں کیا جاتا ہے۔ اس کام میں مقامی لوگوں نے بھی میری مدد کی۔
انھوں نے مدھیہ پردیش حکومت کے اس میوزیم کی تعمیر میں بھی مدد کی۔
انھوں نے نہ صرف آثار قدیمہ پر تحقیق کی بلکہ علاقے کی نوجوان نسل کو بھی متاثر کیا۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے کچھ طالب علموں نے پہلے ’پیلیو سائنس‘ یعنی ماحولیات اور ارضیات سے متعلق تعلیم حاصل کی تھی۔
وشال ورما نے مقامی لوگوں کو خطے کے وسائل کے تحفظ کے بارے میں بھی آگاہی دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18