ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی زمین پر ایک عالیشان رام مندر کی تعمیر ہو چکی ہے ، فی الحال آرائش کا ، اور وزیراعظم نریندر مودی کے ، جو ۲۲ جنوری کے روز اس مندر کا افتتاح کریں گے ، استقبال کی تیاری کا کام چل رہا ہے ۔ رام مندر ٹرسٹ نے دنیا بھر کے وی وی آئی پی ، اور وی وی وی آئی پی حضرات کو ، جن میں بڑے بڑے صنعت کار ، فلمی ستارے ، سیاست داں اور کھلاڑی شامل ہیں ، مندر کے افتتاح پر مدعو کیا ہے ۔ اُن سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کو بھی دعوت نامے بھیجے گیے ہیں ، جو خود کو سیکولر کہلاتی ہیں ، جیسے کہ کانگریس اور ترنمول کانگریس ، کمیونسٹ پارٹیاں وغیرہ ۔ کچھ سیاست دانوں نے ، جیسے کہ کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر سیتا رام یچوری اور برندا کرات نے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ وہ ایودھیا میں رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے ۔ ممتا بنرجی کی طرف سے شرکت نہ کرنے کا بیان سامنے آ چکا ہے ۔ کانگریس کی طرف سے کوئی باضابطہ بیان نہیں آیا ہے لیکن یہ کہا جا رہا ہے کہ سونیا گاندھی افتتاحی تقریب میں شرکت کر سکتی ہیں ، اور اگر وہ نہیں گئیں تو کانگریس پارٹی کا ایک وفد نمائندگی کے لیے بھیجا جا سکتا ہے ۔ فلم اسٹار امیتابھ بچن بھی مدعو ہیں ، عالیہ بھٹ ، یش ، رنبیر کپور ، پربھاش وغیرہ کے نام بھی فہرست میں ہیں ۔ امبانی برادران ، اڈانی ، رتن ٹاٹا ، سچن تینڈولکر اور ویراٹ کوہلی بھی مدعو ہیں ۔ مسلم وی وی آئی پی کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد کو مدعو کیا گیا ہے ، لیکن ابھی ناموں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے ۔ رام مندر ٹرسٹ کا دعویٰ ہے کہ ۵۰ ملکوں سے لوگ شریک ہوں گے ، اور سعودی عربیہ ، دبئی سے بھی مہمان آ سکتے ہیں ۔ ویسے کسی مندر ، مسجد ، چرچ یا کسی عبادت گاہ کے افتتاح میں کوئی بھی جائے کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ، یہ ہر شخص کی آستھا کا معاملہ ہے ۔ لیکن اگر عبادت گاہ کسی دوسری عبادت گاہ کو منہدم کر کے تعمیر کی گئی ہو ، اور اس کی بنیاد انسانی لہو پر رکھی گئی ہو تو ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ، اور اس کا جواب بالکل وہی ہے جو سیتا رام یچوری اور برنداکرات نے دیا ہے کہ سیاست کو مذہب سے نہیں جوڑنا چاہیے ۔ اس ملک میں بی جے پی نے رام مندر کی تحریک کو ’ ہندوتو ‘ کی تحریک بنا دیا ہے ، اور اس کے بَل پر اس نے مرکز پر قبضہ حاصل کر لیا ہے ۔ سونیا گاندھی اور کھڑگے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرکے وہ ہندوؤں کے ووٹ حاصل کر لیں گے ، تو وہ شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ ان کے سامنے مدھیہ پردیش کے اسمبلی الیکشن کی مثال ہے جہاں کمل ناتھ نے ’ نرم گرم اور سخت ‘ ہر طرح کے ’ ہندوتوا ‘ کو آزمایا ، مگر انہیں زبردست شکست ملی ۔ بی جے پی کے ’ ہندوتو ‘ کے سامنے کانگریس کا ’ ہندوتوا ‘ بے معنیٰ ہے ، کمزور ہے ۔ اگر کانگریس کو ’ ہندوتوا ‘ کی پالیسی ہی اپنانی ہے تو اسے چاہیے کہ وہ بی جے پی سے بھی زیادہ کٹّر ہو جائے ۔ لیکن شاید یہ کانگریس نہ کر سکے ، کیونکہ اسے اپنا ’ سیکولر ‘ چہرہ بھی سامنے رکھنا ہے ۔ یاد رہے کہ دو کشتیوں کی سواری نقصان ہی پہنچاتی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اِن پارٹیوں کو مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت ہے ، لیکن مسلمانوں کے احساسات اور جذبات کو یہ ٹھوکر پر رکھتے ہیں ۔ کانگریس کے لیڈران اگر رام مندر کے افتتاح میں شرکت کرتے ہیں تو اس میں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے ، یہ تو کہتے ہی چلے آ رہے ہیں کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی راہ ہم نے ہموار کی ، اور رام مندر کی تحریک میں کانگریس کا بڑا حصہ ہے ۔ اور یہ سچ بھی ہے ، نرسمہا راؤ کانگریس کے وزیراعظم تھے ، اور انہی کے دور میں مسجد شہید کی گئی تھی ۔ خیر جسے جانا ہے وہ رام مندر کی افتتاحی تقریب میں جائے ، لیکن وہ یہ یاد رکھے کہ بابری مسجد کی شہادت کو ، اور اس کے نتیجے میں ملک بھر میں ہونے والے فسادات کو کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا ، یہ سانحے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی جیتی جاگتی مثال ہیں ، اور یہ جو شریک ہو رہے ہیں یقیناً ان کے لیے نہ مسجد کی شہادت الم انگیز ہے یا تھی ، اور نہ ہی فسادات میں جانے والی جانیں ان کے لیے کوئی معنیٰ رکھتی ہیں ۔ تو مسلمان بھلا کیوں ان کی فکر کریں !
تحریر: شکیل رشید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18