وہ ایک بہت ذہین ڈاکٹر تھے جنھیں یہ یقین تھا کہ سینکڑوں لوگوں کو مار کر بھی وہ قانون کی گرفت سے محفوظ رہیں گے۔ پولیس کے ہاتھوں شبے کی بنیاد پر پکڑے جانے کے باوجود اُن کا یہ یقین کم نہیں ہوا تھا۔
وہ کہتے تھے کہ لوگ اچانک مر جاتے ہیں، خصوصاً بوڑھے لوگ جنھیں ایک دن مرنا ہی ہوتا ہے۔ وہ بضد رہے کہ انھوں نے کچھ غلط کام نہیں کیا اور یہ کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اُن کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔ مگر ان تمام تر خوش فہمیوں کے باوجود وہ محض ایک چھوٹی سے غلطی پر پکڑے گئے۔
برطانوی تاریخ کے سب سے بڑے سیریل کلر کی گرفتاری ایک فون کال سے شروع ہوئی۔ ہائیڈ مانچسٹر کے علاقے میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس کی آبادی تیس ہزار سے کچھ زیادہ تھی۔
ہائیڈ کی سابق میئر کیتھرین گرونڈی اگست 1998 میں 81 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ 81 سال کی عمر میں ہونے والی موت پر کسی کو کیا شک ہونا تھا لیکن کیتھرین کی وکیل بیٹی کی بیٹی کے دل میں شک اس وقت پیدا ہوا جب انھوں نے اپنی والدہ کی وصیت پڑھی۔
بوڑھی خاتون کی وصیت میں لکھا تھا کہ ’میں ڈاکٹر ہیرالڈ فریڈرک شپمین کو اپنا گھر وصیت کرتی ہوں۔‘
کیتھرین کی بیٹی کا کہنا تھا کہ یہ وصیت ان کی والدہ کی جانب سے نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ وہ اس علاقے میں دو مکانات کی مالکہ تھیں اور اگر انھیں اپنی جائیداد کے بارے میں وصیت کرنی ہی تھی تو وہ صرف ایک مکان کے بجائے دونوں مکانوں کا تذکرہ اپنی وصیت میں کرتیں۔
انھیں وصیت پڑھ کر یقین کی حد تک شک گزرا کہ یہ وصیت کسی ایسے شخص کی طرف سے تحریر کی گئی ہے جو یہ نہیں جانتا تھا کہ کیتھرین دو گھروں کی مالکن ہیں نہ کہ صرف ایک کی۔
یہ مبینہ وصیت سامنے آنے کے ایک ماہ بعد سات ستمبر 1998 کو ڈاکٹر ہیرالڈ شپمین کو گرفتار کر لیا گیا۔ حکام کا اس وقت کہنا تھا کہ انھیں قتل کی تفتیش کے سلسلے میں پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کیا گیا ہے مگر اس تفتیش کے نتیجے میں 200 سے زیادہ قتل کی وارداتوں کی تفصیلات سامنے آئیں۔
مانچسٹر کے علاقے ہائیڈ، جہاں ڈاکٹر کا کلینک تھا، کی آبادی 30 ہزار تھی اور اُن میں سے تقریباً تین ہزار افراد ڈاکٹر ہیرالڈ کے مریض تھے۔ کیتھرین کی وکیل بیٹی نے وصیت پڑھ کر جو محسوس کیا تھا کچھ اسی طرح کا شک اس علاقے میں مرنے والوں کی آخری رسومات کا انتظام کرنے اور اس ضمن میں سروس مہیا کرنے والی خاتون ایلن میسی کو بھی گزرا تھا کہ ان کے علاقے میں کچھ غلط ہو رہا تھا۔
اسی شک کی بنیاد پر ایلن میسی نے ایک مرتبہ اپنی بیٹی ڈیبی کو بتایا تھا کہ ڈاکٹر ہیرالڈ کے پاس علاج کی غرض سے جانے والے مریضوں میں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔ ایک اور خطرناک بات جو ایلن نے محسوس کی تھی وہ یہ کہ مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین تھیں۔
ایلن یہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ یہ بات کیسے کریں کیونکہ اُن کے چھوٹے سے گاؤں میں ڈاکٹر ہیرالڈ بہت عزت دار شخص کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ایلن اس بات سے بھی پریشان تھیں کہ ایسے آدمی پر الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے۔
تاہم ذہن میں بہت سے سوالات لیے ایلن ایک روز ڈاکٹر ہیرالڈ سے ملنے گئیں اور ان سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ ڈاکٹر ہیرالڈ نے کوئی جواب نہیں دیا، وہ کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے اور پھر اٹھے اور الماری سے متعدد فائلیں نکال کر ایلن کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’اس رجسٹر میں تمام معلومات موجود ہیں۔ جو لوگ چیک کرنا چاہتے ہیں وہ دیکھ سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر سے ملاقات کا یہ واقعہ کیتھرین گرونڈی کی وکیل بیٹی کی جانب سے اپنی ماں کی وصیت میں ردو بدل کی شکایت کرنے سے چار ماہ قبل پیش آیا تھا۔
ہیرالڈ کے شکار افراد میں زیادہ تر متاثرین بوڑھے تھے۔ موت کے بعد ان افراد کی لاشیں بھی پراسرار حالات میں ملتی تھیں یعنی جب ان بوڑھوں کی لاشیں ملیں تو ان میں سے بیشتر صاف ستھرے کپڑے پہنے اور کرسی پر بیٹھے تھے۔
ان میں بڑھاپے کے باوجود کسی جان لیوا بیماری کی کوئی علامت نہیں تھی جو ان کی فوری اور اچانک موت کا سبب بن سکتی تھی۔
ڈاکٹر ہیرالڈ گذشتہ بہت سے برسوں سے اپنے مریضوں کو قتل کر رہے تھے اور ان کے زیادہ تر شکار تنہا رہنے والے بوڑھے لوگ تھے۔ ان بوڑھے افراد کی اولاد اُن سے دور ہوتی اور ڈاکٹر ہیرالڈ انھیں وقت دیتے تھے۔ وہ ان سے باتیں کرتے اور ان کے علاج کے لیے ان کے گھر جاتے۔ یہ بوڑھے لوگ اپنے دل کی باتیں ڈاکٹر کو بتاتے تھے۔
بظاہر اپنے اسی انسان دوست رویے کی وجہ سے وہ ہائیڈ نامی علاقے میں مشہور ہو گئے اور ان کے مریضوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔
ڈاکٹر ہیرالڈ چونکہ مریضوں کے گھر آیا جایا کرتے تھے اس لیے ان کے حالات سے بخوبی واقف تھے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کون اکیلا ہے، کس کے پاس دولت ہے، کس کے بچے، رشتہ دار اس کی صحت کے بارے میں پوچھتے ہیں اور کون اکیلا نہیں ہے۔
ہائیڈ کے لوگ ان پر اتنا بھروسہ کرتے تھے کہ کچھ نے تو اپنے گھروں کی چابیں تک انھیں دے رکھی تھیں اور اسی کی بنا پر ڈاکٹر ہیرالڈ فیصلہ کرتے کہ کیسے مارنا ہے اور کسے نہیں۔
’کچھ غلط ہے‘
ڈاکٹر ہیرالڈ ہائیڈ کے ڈونی بروک میڈیکل سینٹر میں کام کرتے تھے۔ انھیں اس سے پہلے ایک نوکری سے نکالا گیا تھا۔
ہیرالڈ سنہ 1976 کے آس پاس ہائیڈ میں کام کرنے آئے۔ اگلے دس سالوں میں، ان کے بہت سے بوڑھے مریض مر گئے، لیکن کسی نے توجہ نہیں دی، یہ فرض کرتے ہوئے کہ بوڑھے لوگ اکثر مر جاتے ہیں۔
نئے جگہ آنے سے قبل ہیرالڈ نے ڈونی بروک ہسپتال میں 12 سال تک کام کیا۔ سنہ 1989 میں ایسا ہی ایک مریض انتقال کر گیا جس کا نام جوزف ولکوکس تھا اور اس کی عمر 62 برس تھی۔ اس کی ٹانگ شدید زخمی تھی اور اسے دیگر بیماریاں بھی لاحق تھیں۔
چنانچہ ایک نرس ہر روز ولکوس کے گھر علاج کے لیے جاتی تھی۔ ہمیشہ کی طرح، جب چھ نومبر کی سہ پہر نرس اس کے گھر پہنچی تو اس نے ولکوس کو مردہ پایا۔ ولکوس کرسی پر بیٹھا تھا، وہ اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھا اور اس کا جسم بالکل ٹھنڈا بھی نہیں تھا۔
نرس نے اس دن ہسپتال کے کمپیوٹر پر دیکھا کہ اس صبح ڈاکٹر ہیرالڈ ولکوس کے گھر آئے تھے۔ نرس نے ڈاکٹر ہیرالڈ سے اس بارے میں پوچھا کہ آج صبح جب آپ یہاں آئے تو کیا آپ کو ایسا کچھ محسوس ہوا؟
ڈاکٹر ہیرالڈ نے اس بارے میں صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ آج ولکوس کے گھر نہیں گیا تھا۔
نرس کو یقین تھا کہ صبح جب اس نے کمپیوٹر پر نظر ڈالی تھی تو ڈاکٹر ہیرالڈ کا دورہ طے شدہ تھا۔ اس معاملے پر نرس اور ہیرالڈ کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی تھیں۔
مگر پھر جب نرس ہسپتال واپس آئیں اور اس نے کمپیوٹر ریکارڈ چیک کیا تو پتا چلا کہ ڈاکٹر ہیرالڈ سچ کہہ رہے تھے۔ آج ولکوس کے معائنے کے لیے ان کا دورہ طے نہیں تھا۔
تاہم نرس نے محسوس کیا کہ ’کچھ گڑبڑ ہے۔‘ نرس نے اپنے اعلیٰ افسران سے شکایت کی۔ ہسپتال کے دیگر ڈاکٹرز اور عملہ ڈاکٹر ہیرالڈ کے مریضوں کی اموات کے بارے میں پہلے ہی چہ مگوئیاں کر رہے تھے۔ تو ڈاکٹر ہیرالڈ نے صرف چار سال کے کام کے بعد ڈونی بروک ہسپتال چھوڑ دیا اور ہائیڈ سٹی میں اپنا ہسپتال بنا لیا۔
ڈاکٹر ہیرالڈ اتنے مقبول تھے کہ جب انھوں نے اپنا ہسپتال کھولا تو ان کے پاس بزرگ مریضوں کی قطار لگ گئی۔
ایک انجکشن اور گیم ختم
جب ڈاکٹر ہیرالڈ کے مریض مسلسل مرتے رہے تو کچھ لوگوں کو شک ہوا۔ ہائیڈ کے ایک اور ہسپتال میں کام کرتے ہوئے ڈاکٹر لنڈا رینالڈس اور راج پٹیل نے پولیس سے معاملے کی تحقیقات کی درخواست کی۔
ان پر شک کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر ہیرالڈ کے بہت سے مردہ مریضوں کو دفن کرنے کے بجائے جلایا جا رہا تھا۔ ان کے رشتہ دار اس کے لیے درخواست کر رہے تھے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ مسیحوں میں عام طور پر لاشوں کو دفنایا جاتا ہے بجائے جلانے کے۔
تاہم ہیرالڈ کے مرنے والے مریضوں کی آخری رسومات میں جلائے جانے کی شرح بہت زیادہ تھی۔ مقامی اصول کے مطابق میت کی آخری رسومات کے لیے درخواست پر دو ڈاکٹروں کے دستخط لازمی تھے۔ ہیرالڈ ایک ڈاکٹر کے طور پر دستخط کرتے جبکہ دوسرے کے لیے کسی اور ڈاکٹر سے مشورہ کرنا پڑتا۔
یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر لنڈا رینالڈز کو شک ہوا کہ ہیرالڈ اپنے مریضوں کو قتل کر رہا ہے۔ لیکن وہ یہ کیسے کر رہا تھا؟
یہ جاننے کے لیے ہم ہیرالڈ کے بچپن اور جوانی کے بارے میں جانیں گے۔
ڈاکٹر ہیرالڈ کی پرورش ایک غریب گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کے والد ٹرک ڈرائیور تھے اور والدہ گھریلو خاتون تھیں۔ ہیرالڈ پر ماں کا بہت اثر تھا۔ ماں نے ہیرالڈ کو صرف ایک سبق سکھایا تھا کہ اگر وہ غربت سے نکلنا چاہتا ہے تو اچھی تعلیم حاصل کرے۔ ہیرالڈ نے سنجیدگی سے اس ہدایت پر عمل کیا۔
اس کی والدہ کو اس وقت کینسر ہو گیا جب وہ سکول میں پڑھ رہے تھے۔ 1960 کی دہائی میں کینسر کا کوئی مؤثر علاج نہیں تھا۔ اس لیے ڈاکٹر ماں کو درد کم کرنے کے لیے درد کش ادویات اور مارفین کے انجیکشن دیتے تھے۔ مارفین کے اس انجیکشن کے بارے میں ہیرالڈ کا تجسس بڑھتا گیا۔
اس دورانیے میں وہ درد کش ٹیکوں کے بھی عادی ہوئے۔ ہیرالڈ نے اپنی ماں کی موت کے بعد میڈیکل سکول میں داخلہ لیا۔ اسی دوران اس کی شادی ہو گئی اور ان کی نشے لت بڑھتی گئی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ہسپتال میں ملازمت شروع کی لیکن نشے نے انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ وہ پہلے ہسپتال میں جونیئر سٹاف کے طور پر تعینات ہوئے تھے، اس لیے وہ کچھ بڑا شکار نہ کر سکے۔
اس نے کچھ ہی دیر میں وہ ہسپتال چھوڑ دیا اور ٹوڈ مورڈن نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کے ابرہام میڈیکل پریکٹس ہسپتال میں نوکری اختیار کی۔ وہاں اسے آزادی ملی، کوئی ان کے کام کی نگرانی نہیں کر رہا تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنے نشے کے لیے ایک نیا کھیل شروع کیا۔
وہ اپنے مریضوں کو درد کش ادویات کے ضرورت سے زیادہ انجیکشن لگاتے تھے اور بچا ہوا حصہ خود استعمال کرتے تھے، لیکن دو سال کے اندر ہی اُن کا کھیل کھل گیا۔
ہسپتال انتظامیہ کو معلوم ہوا کہ ہیرالڈ نشے کے عادی تھے، چنانچہ انھیں نوکری سے نکال دیا گیا۔ اُن کا میڈیکل لائسنس منسوخ ہونے کے قریب آ گیا لیکن انھوں نے اس سے بچنے کے لیے 600 پاؤنڈ جرمانہ ادا کیا اور نشے کی لت سے چھٹکارے کے لیے انھیں نشے کے علاج کے مرکز جانا پڑا۔
وہاں سے وہ آ کر ہائیڈ میں آباد ہوئے۔ تاہم اس کی طبیعت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اب وہ درد کش ادویات کے بجائے لوگوں کو مارنے کا عادی تھے۔
ڈاکٹر ہیرالڈ اپنے عمر رسیدہ اور تنہا مریضوں کے گھر شوق سے جایا کرتے تھے۔ لوگ ڈاکٹر ہیرالڈ کی تعریف کرتے تھے کہ وہ اپنے مریضوص کا اتنا خیال کرتے ہیں کہ اُن کے گھر جا کر ان کا علاج کرتے ہیں تاکہ انھیں ہسپتال نہ جانا پڑے۔
انھوں نے پہلے سے ان خاص مریضوں کا انتخاب کر رکھا تھا۔ وہ مریضوں کے گھر جا کر ان سے گفتگو کرتے، ان مریضوں میں اکثریت خواتین کی ہوتی تھی۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ڈاکٹر ان کے گھر آ رہے ہیں، وہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر ان کا انتظار کرتیں۔
ہیرالڈ کے علاوہ ان کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا تھا۔ وہ وہاں پہنچ کر مریضوں سے بات چیت کرتے، ہر مریض کے پاس اس کی صحت کے متعلق کوئی شکایت ہوتی تو ڈاکٹر ہیرالڈ یہ شکایت سنتے اور کہتے کہ جو انجیکشن وہ دینے لگے ہیں اس سے ان کی تمام تکلیف دور ہو جائے گی۔ بزرگ مریض زیادہ تر مارفین انجیکشن لیتے وقت صوفوں یا کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہوتے تھے۔ اس کے لگتے ساتھ ہی ان کے دل کی رفتار سست ہو جاتی اور پھر وہ مر جاتے۔
پولیس کے اندازے کے مطابق اپنے 27 سالہ کیریئر میں ڈاکٹر ہیرالڈ نے 215 سے 250 کے درمیان مریضوں کا اسی انداز میں قتل کیا۔
اختتام
کئی دفعہ ایک ہی ہفتے میں ہیرالڈ کے تین تین مریض مر جاتے تھے اور کبھی دو سے تین مہینوں تک کوئی ہلاکت نہیں ہوتی تھی لیکن پھر بھی کسی دوسرے ڈاکٹر کے نسبت ہیرالڈ کے مریض زیادہ مر رہے تھے۔ اس کے باوجود تین دہائیوں تک کسی کو شک نہیں ہوا، اتنے سالوں تک یہ چیز کیوں نہیں پکڑی گئی۔
کچھ لوگوں کو شک ہو رہا تھا لیکن ڈاکٹر ہیرالڈ کا نام اتنا بڑا تھا تھا کہ کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ایسی بات کرے۔
ایسا نہیں ہے کہ ڈاکٹر ہیرالڈ کوئی بدمعاش یا گینگسٹر تھے اور لوگ ان سے اس وجہ سے ڈرتے تھے۔ ان کا بہت احترام تھا کیونکہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ایک عزیز اور دوست کی طرح مریضوں کا خیال رکھتے تھے۔
ان کی کچھ عادتیں عجیب تھیں۔ انھیں کبھی کبھی اچانک غصہ آ جاتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ نوجوانی میں نشے کے عادی ہو گئے تھے۔ وہ کسی کو بھی اپنے مریضوں کے گھر جانے یا ان کے خون کے نمونے لینے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ وہ ہر چیز کو کنٹرول کرتے تھے۔
تو جب ڈاکٹر لنڈا رینالڈس پہلی بار پولیس کے پاس گئیں تو پولیس کو ان کے خلاف کچھ غلط نہیں ملا۔ پولیس نے ریکارڈ دیکھے لیکن انھیں سب ٹھیک ہی لگا۔ پولیس کی سوچ یہ تھی کہ ایسے شخص کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں کیوں لیا جائے جس سے لوگوں کو بھی ان پر غصہ آئے گا۔
ہیرالڈ کی منصوبہ بندی بالکل درست تھی۔ 27 سال تک، یہ جانتے ہوئے کہ اس پر اکثر شک کیا جاتا تھا، ہیرالڈ کسی کے ہاتھ میں نہیں آئے۔
انھوں نے جتنے قتل کیے انھیں بڑھاپے کی موت سمجھا گیا۔
شاید ان جیسے واقعات نے ہیرالڈ کو یہ احساس دلایا کہ ’مجھے کوئی نہیں پکڑ سکتا۔‘ وہ لطف اندوز ہو رہے تھے اور اسی دوران اس سے غلطی ہو گئی۔
انھوں نے کیتھرین گرونڈی کی وصیت کی جعلسازی کی اور یہ کیتھرین کی وکیل بیٹی کی توجہ میں آیا جس پر ان کا ماتھا ٹھنکا۔
اسے شبہ تھا کہ اُن کی والدہ کو دولت کے لیے قتل کیا گیا ہے۔
یہ ہیرالڈ کی پہلی بڑی غلطی تھی۔ جب پولیس نے انھیں پوچھ گچھ کے لیے بلایا تب بھی وہ بضد تھے کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا اور یہ کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں۔
اس کی جرح کی ایک تفصیل یوٹیوب پر دستیاب ہے جس سے ان کے لاپرواہ رویے کا اندازہ ہوتا ہے۔
پوچھ گچھ کے دوران ہیرالڈ پولیس افسران کو طبی حقائق بتاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ کہ کیتھرین کی موت بڑھاپے کی وجہ سے ہوئی۔
کیتھرین کی وصیت ایک ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کی گئی جس کی بنیاد پر پولیس نے ہیرالڈ کا ٹائپ رائٹر ضبط کر لیا اور اس کا تجزیہ کیا۔
اس ٹائپ رائٹر پر چند حروف واضح طور پر ٹائپ نہیں ہوتے تھے اور کیتھرین کی وصیت میں بھی یہی دیکھا گیا جس سے اس شک نے تقویت پکڑی کہ جس ٹائپ رائٹر پر کیتھرین کی جعلی وصیت ٹائپ کی گئی تھی وہ ہیرالڈ کا تھا۔
تاہم ہیرالڈ پھر بھی اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ جب ان کی مریضہ کیتھرین کو کچھ ٹائپ کرنے کی ضرورت ہوتی تھی وہ انھیں اپنا ٹائپ رائٹر دے دیتے تھے۔
پولیس کو مزید شواہد درکار تھے۔
ہیرالڈ نے کیتھرین گرونڈی کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ پر بھی دستخط کیے تھے جس پر تحریر تھا کہ کیتھرین کی وفات بڑھاپے کی وجہ سے ہوئی۔
تاہم ان کی بیٹی کا دعویٰ تھا کہ اگرچہ ان کی والدہ کی عمر کافی زیادہ تھی مگر وہ بالکل ٹھیک تھیں اور اُن کے اچانک مرنے کا امکان نہیں تھا۔
بلآخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ کیتھرین کی مدفون لاش کو نکال کر اس کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔
پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ کیتھرین کو ڈائیمورفین کی مہلک خوراک دی گئی تھی۔
اس علاقے میں ڈائمورفین صرف اسی ڈاکٹر کے پاس دستیاب تھی۔ اس پر ڈاکٹر ہیرالڈ نے دلیل دی کہ وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور انھوں نے تفتیش کاروں کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی ہو سکتا ہے کہ کیتھرین نے ڈائیمورفین کی زیادہ مقدار لے کر خودکشی کر لی ہو۔
پھر بھی کوئی پختہ ثبوت نہیں ملا۔
تاہم جب یہ خبر علاقے میں پھیلی کہ ہیرالڈ پر مورفین کی زیادہ مقدار دے کر اپنے مریضوں کو مارنے کا الزام لگایا گیا ہے تو علاقے کے کئی خاندان یہ جاننے کے لیے آگے آئے کہ آیا ان کے رشتہ داروں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
یہ وہ افراد تھے جن کے گھر کی کئی بزرگ خواتین اچانک وفات پا گئی تھیں اور ان کے معالج بھی ہیرالڈ ہی تھے۔ یہ خواتین بھی اسی انداز میں مردہ پائی گئی تھیں جیسے کیتھرین۔
اگلے چند ہفتوں میں، ایک قتل کی تفتیش 20 مبینہ قتل کی وارداتوں تک بڑھ گئی اور نزدیکی بڑے شہریوں سے صحافی اس چھوٹے سے گاؤں میں پہنچنے لگے۔
تفتیش کی غرض سے تین دیگر خواتین کی لاشیں نکالی گئیں جن کی جسموں میں ڈائمورفین کی مہلک مقدار پائی گئی۔
پولیس نے ہیرالڈ کے ہسپتال پر چھاپہ مارا اور اُن کے تمام رجسٹر، نوٹ بک اور کمپیوٹر ضبط کر لیے۔
مریضوں والے رجسٹر میں وہی کچھ درج تھا جو ڈاکٹر ہیرالڈ پولیس کو بتاتے آئے تھے چنانچہ یہاں سے کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ پولیس کے پاس ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا، لیکن ایک فرانزک ماہر نے کمپیوٹر کا معائنہ کیا اور مختلف معلومات سے پردہ اٹھایا۔ یہ ہیرالڈ کی تیسری اور سب سے بڑی غلطی تھی۔
ہیرالڈ نے اپنے کیے گئے قتل کو چھپانے کے لیے مریضوں کے ریکارڈ میں تبدیلی کی تھی۔اس نے ایسی دوائیوں کا ذکر کیا جو اس کے مریض نہیں لے رہے تھے اور یہ تاثر پیدا کیا کہ مریض شدید بیمار ہے اور کسی بھی وقت مر سکتا ہے۔
انھوں نے پیپر رجسٹر میں تمام ریکارڈ تبدیل کر دیا تھا اور اس میں کوئی غلطی نہیں تھی۔ اگرچہ انھوں نے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈز میں بھی ترمیم کی تھی لیکن وہ اس وقت کی نئی ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے۔
ابتدائی ریکارڈ اور بدلا ہوا ریکارڈ سب کمپیوٹر کے ریکارڈز سے مل گیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کمپیوٹر پر کسی بھی دستاویز میں ترمیم کے وقت اسے ٹائم اسٹیمپ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس لیے فائل میں کتنی بار ترمیم کی گئی تاریخ، وقت، تعداد سب کا پتا لگایا جا سکتا ہے، لیکن ہیرالڈ کو یہ معلوم نہیں تھا۔
ہیرالڈ کے کمپیوٹر کو چیک کرنے پر یہ تمام معلومات سامنے آئیں اور پولیس کو پختہ ثبوت ملے۔
اس کے بعد ہیرالڈ کے خلاف 15 افراد کے قتل کا مقدمہ شروع ہوا۔
ہیرالڈ کی آنکھیں اس دن پھیل گئیں جب پولیس نے اسے کمپیوٹر سے ملنے والے ثبوت دکھائے اور پوچھا۔ اُن کا سارا غرور ختم ہو گیا اور شاید یہ پہلا موقع تھا جب انھیں احساس ہو گیا تھا کہ وہ پکڑے جا چکے ہیں۔
اس نے کبھی پولیس کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف نہیں کیا۔ یقیناً پولیس کو اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کے پاس مضبوط شواہد موجود تھے۔
ہیرالڈ شپمین کا کیس برطانیہ میں مشہور ہے۔ وہ شاید برطانیہ میں سب سے زیادہ مشہور سیریل کلر تھے۔ بہت سے ماہرین نفسیات نے قتل کے پیچھے محرکات کا مطالعہ کیا۔
بعض نے کہا ہے کہ ڈاکٹر ہونے کے ناطے ہیرالڈ کو یقین تھا کہ وہ خدا ہے اور اس نے یہ قتل اس تصور کے تحت کیے ہیں کہ جو جان دے سکتا ہے وہ جان بھی لے سکتا ہے۔
کچھ کے مطابق ہیرالڈ اپنی ماں کی بے وقت موت کا بدلہ لے رہا تھا۔
ہیرالڈ کو شواہد کی روشنی میں 15 بار عمرقید کی سزا سنائی گئی۔ اس کا مطلب تھا کہ جب تک وہ زندہ رہیں گے وہ کبھی جیل سے باہر نہیں آئیں گے۔
مگر کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔
حکام کو خدشہ تھا کہ ہیرالڈ جیل میں بھی قتل کا سلسلہ نہیں روک سکے گا اور یہ خدشہ سچ ثابت ہوا کیونکہ ہیرالڈ کے ساتھ جیل میں دو قیدیوں کو درد کش ادویات کی زیادہ مقدار کی وجہ سے آئی سی یو میں داخل کرنا پڑا تھا۔
یہ درد کش ادویات جیل میں سمگل کر گئی تھیں۔
ہیرالڈ نے 2004 میں جیل میں پھانسی لگا کر خودکشی کر لی تھی۔ اس نے خودکشی کے لیے بھی صحیح وقت کا انتخاب کیا۔ چونکہ اس نے ریٹائرمنٹ کی عمر سے پہلے خودکشی کر لی، اس لیے ان کی بیوی ان کی تمام پنشن کی حقدار بن گئیں۔ یہ اُن کے کنٹرول میں موجود آخری چیز تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18

۔
۔