اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ سیکٹر آئی ٹین میں موجود مظاہرین کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے منتظمین کے حوالے کیا جائے۔
جمعے کو بلوچ مظاہرین کی گرفتاریوں اور احتجاج کا حق دینے سے روکنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ میں پولیس سربراہ اکبر ناصر نے بتایا کہ کوئی خاتون حراست میں نہیں۔
دوسری جانب بلوچستان کے متعدد بڑے شہروں میں بلوچ خواتین پر اسلام آباد میں تشدد کے خلاف ہڑتال کی گئی۔
درخواست گزار کی جانب سے وکیل عطا اللہ کنڈی، ایمان مزاری اور زینب جنجوعہ عدالت میں پیش ہوئے اور بتای کہ خواتین کو زبردستی گاڑیوں میں بٹھا کر واپس بھجوایا گیا۔ اسلام آباد پولیس کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ جو لوگ واپس جانا چاہتے تھے ان کے لیے بس کا انتظام کیا گیا تھا، اس وقت سیکٹر آئی ٹین میں کچھ خواتین بچے موجود ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ بچے آئی ٹین میں کیوں ہیں، وہ جہاں بھی جانا چاہیں جا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ وہ پرامن احتجاج کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ ’آپ ان کے منتظمین کو لے جائیں اور بچوں کو ان کے حوالے کر دیں۔‘
درخواست گزاروں کے وکلا نے بتایا کہ گزشتہ روز پولیس سربراہ کا بیان تھا کہ خواتین ان کی حراست میں نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’گزرے کل آپ نے کہا تھا کہ خواتین آپ کی حراست میں نہیں ہیں، کیا خواتین کے پولیس سٹیشن میں خود ہی بند کر لیا تھا، آپ نے کہا کوئی بچہ کوئی خاتون نہیں تھی۔‘
چیف جسٹس عامر فاروق نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے پوچھا کہ ’کون اپنی مرضی سے تھانے میں بیٹھتا ہے۔‘
اکبر ناصر نے بتایا کہ جو لوگ حراست میں لیے گئے اُن میں سے 34 کو عدالتوں سے جیل بھجوا دیا ہے جبکہ ایک جسمانیئ ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہے۔
آئی جی نے بتایا کہ 19 خواتین کو رہا کیا گیا۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ تحریری طور پر بتائیں کہ جس بھی خاتون کو گرفتار کیا گیا۔ ’ویمن پولیس سٹیشن میں کتنی خواتین تھیں، کتنی چلی گئیں وہ رپورٹ دیں۔‘
چیف جسٹس نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے کہا کہ ’مناسب یہی ہے کہ آپ پٹیشنر اور اُن کے وکلا کو مطمئن کریں۔‘
ہیومین رائٹس کمیشن کے ایک عہدیدار احمد بٹ نے عدالت کو بتایا کہ ’ہماری بچیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بسوں میں ڈالا گیا، جمہوری نظام میں احتجاج ہر کسی کا آئینی اور قانونی حق ہے۔‘
ہیومین رائٹس کمیشن کے عہدیدار نے کہا کہ ’جو رویہ گزشتہ دو راتوں میں ہمارے بچوں بچیوں کے ساتھ کیا گیا، شاید ایسا پہلے کبھی ہوا ہو۔‘
چیف جسٹس نے وکلا اور پولیس افسران سے کہا کہ ’آپ لوگ جائیں گے، سارا معاملہ دیکھ لیں گے کوئی مسئلہ آتا ہے تو میرے آفس سے رابطہ کر لیں، آج کی سماعت پر میں تفصیلی فیصلہ جاری کروں گا، آئندہ ہفتے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کیس کی سماعت کریں گے۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں