برازیل کے لیجنڈ پیلے شاید دنیا کے سب سے عظیم فٹبالر تھے مگر اس کے باوجود وہ ویاگرا کے ’پوسٹر بوائے‘ یعنی سفیر بنے جبکہ مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ کی جانب سے بھی ویاگرا کی حمایت کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم اگر جنوبی ویلز کا ایک صنعتی قصبہ نہ ہوتا تو شاید کسی کو ویاگرا کی خبر نہ ہو پاتی۔
’مرتھر ٹڈویل‘ نامی اس قصبے کے کئی مرد سٹیل فیکٹریوں کے سابق ملازم تھے۔ صنعتی کساد بازاری کے دور میں وہ فیکٹریوں سے نکل کر دوسری نوکریوں کی تلاش پر مجبور ہوئے۔ ایسے ہی بیروزگار ہونے والے صنعی مزدوروں میں سے کچھ طبی مرکز کے ایک ریسرچ سینٹر کے رضاکار بنے جن پر مستقبل میں مختلف طبی تجربے کیے جانے تھے۔
مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ جس طبی تحقیق کا وہ حصہ بننے جا رہے ہیں وہ تاریخ ساز ثابت ہو گی۔
انھیں 30 سال بعد پتا چلا کہ انھوں نے اس دوا کی آزمائش میں حصہ لیا تھا جس نے لاکھوں مردوں میں ایریکٹائل ڈسفنگشن (قوت ایستادگی کی کمزوری) کا علاج کیا ہے۔
1990 کی دہائی کے آغاز میں دوا ساز کمپنی فائزر ’سلڈینفل یو کے 90،480‘ نامی ایک مرکب کی آزمائش کر رہی تھی۔ اس کا مقصد ہائی بلڈ پریشر اور انجائنا (چھاتی میں تکلیف) کی صورت میں مدد فراہم کرنا تھا۔
اس سلسلے میں اس کمپنی نے ایک ریسرچ سینٹر میں تحقیق کی اور نوجوان مردوں کو آزمائش کے لیے بھرتی کیا۔
اڈرس پرائس ان لڑکوں میں سے تھے جنھوں نے 1992 میں اس نئی دوا کی آزمائش میں حصہ لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب کبھی میرے پاس پیسوں کی کمی ہوتی تو میں اس جگہ جاتا جس کا نام ’سبمک‘ تھا۔‘
وہاں جا کر وہ انتظامیہ سے پوچھتے تھے کہ وہ کون سی تحقیق میں حصہ لے کر پیسے کما سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں دوا کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا جاتا تھا۔ صرف ڈاکٹر یہ کہتے کہ فلاں گولیاں انجائنا کے مرض کے علاج کے لیے ہیں اور ان کے شاید آپ پر کچھ منفی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔‘
’کئی لڑکے یہ سُن کر پریشان ہوتے کہ نہ جانے کیا ہو گا۔‘
نوجوان رضاکاروں کو مسلسل 10 روز تک دن میں تین بار یہ دوا لینے کو کہا گیا۔
انھوں نے بی بی سی کی دستاویزی فلم ’کیپ اِٹ اپ‘ کو بتایا کہ ’1980 کی دہائی کے اواخر اور 90 کی دہائی کے شروع میں ہمارے لیے زندگی بہت مشکل تھی۔ کوشش ہوتی تھی کہ کہیں سے بھی پیسے آ جائیں۔‘
’اس دوا کے تجربے کا حصہ بننے سے ملنے والے پیسے میرے خاندان کے لیے بہت اہم تھے کیونکہ ان دنوں ہمارے پاس کوئی روزگار نہیں تھا۔‘
’یہاں سے ملنے والے پیسوں سے ہم کھانے پینے کا اضافی سامان خرید پاتے اور آگ جلانے کے لیے کوئلے کے دو بیگز کی بجائے پانچ بیگز خرید پاتے۔ یہ ’ایزی منی‘ تھی جو ہمارے کام آئی۔‘
مگر اس دوا کا ٹرائل ختم ہونے پر ایک غیر معمولی منفی اثر کے بارے میں پتا چلا۔
فائزر کے سابق ملازم ڈاکٹر پیٹ ایلس کے مطابق رضاکاروں نے یہ بتانا شروع کیا کہ ’یہ کچھ شرمندگی کا باعث ہے لیکن میں نے نوٹس کیا ہے کہ مجھے معمول سے زیادہ ایستادگی محسوس ہو رہی ہے اور یہ قوت پہلے سے زیادہ ہے۔‘
اس مشاہدے پر کمپنی فائزر نے ایستادگی کی قوت سے محرومی سے جڑی ایک نئی تحقیق کا آغاز کیا۔
برسٹل کے ساؤتھ میڈ ہسپتال میں ایریکٹائل ڈسفنگشن کے مریضوں پر اس کی آزمائش کی گئی۔ سوانسی میں 1994 کے دوران اس کی مزید طبی آزمائش کی گئی۔
سوانسی مورسیٹن ہسپتال میں وسیع پیمانے پر آزمائش ہوئی جہاں ذیابیطس اور دل کے مریضوں پر بھی اس کا تجربہ کیا گیا۔ ان بیماریوں کے شکار افراد میں ایریکٹائل ڈسفنگشن کی بھی شکایت ہوتی ہے۔
ٹرائل کے سربراہ اور اینڈوکرینولوجی کنسلٹنٹ ڈیوڈ پرائس کہتے ہیں کہ ’فائزر نے کہا کہ اس کے لیے صرف مخالف جنس کی طرف مائل مرد ہونے چاہییں جو ایک رشتے میں ہوں۔‘
’ہم نے عام مردوں پر آزمائش کی۔ یہ سوانسی کے شادی شدہ اور بلیو کالر نوکریاں کرنے والے مرد تھے۔ آزمائش کے دوران مردوں کو فحش ویڈیوز بھی دکھائی گئیں۔‘
آزمائش میں شامل مردوں کے عضو تناسل پر ایک ڈیوائس نصب کی گئی جو دوا کے اثر کی نگرانی کرتی تھی۔ ڈاکٹروں نے آزمائش کا حصہ بننے والے رضاکاروں کو تسلی دی کہ اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔
برسٹل کے مطالعے کی طرح سوانسی میں ہونے والی آزمائش نے مثبت نتائج دیے۔ فائزر کو احساس ہوا کہ ان کے ہاتھ ایک ممکنہ ’گیم چینجر‘ دوا لگ چکی ہے۔
یہ نتائج اس قدر مثبت تھے کہ اس تجربے کا حصہ کرنے والے کئی رضاکار مردوں نے غیر استعمال شدہ گولیاں واپس کرنے سے انکار کر دیا۔
فائزر کی مارکیٹنگ ٹیم نے پھر یہ سوچنا شروع کر دیا کہ وہ کیسے اس نئی دوا کی مناسب تشہیر کر سکتے ہیں۔ ماہرین نے غور کیا کہ آیا عوام اسے ’خاص‘ چیز سمجھے گی یا ’تباہ کن‘۔
کمپنی کو تشویش تھی کہ وہ ایک روایت پسند دنیا میں ’سیکس ڈرگ‘ متعارف کروانے جا رہی ہے۔ انھوں نے طبی آزمائش کے دوران مردوں کے ردعمل کو مارکیٹنگ میسج میں تبدیل کیا۔
فائزر کی سابق سینیئر مارکیٹنگ مینیجر جینیفر ڈوبلر کہتی ہیں کہ ’تحقیق سے ایک خیال یہ سامنے آیا کہ ایستادگی سے محرومی ایک شخص کو کس طرح متاثر کرتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اس سے ان کے جنسی تعلقات کیسے متاثر ہوتے ہیں۔‘
’اِن مردوں کی باتوں نے مجھے کافی متاثر کیا۔‘
اپنے پیغام کو مزید مضبوط کرنے کے لیے فائزر نے کہا کہ اس دوا سے ان کے خراب جنسی تعلقات ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ انھیں ویٹیکن کی بھی حمایت حاصل ہوئی جس کا خیال تھا کہ ویاگرا شادی کے بندھن میں بندھے افراد کے رشتے کو مضبوط بنا سکتی ہے اور اس سے خاندانی اقدار بہتر ہوں گی۔
سنہ 1998 میں بڑے پیمانے پر تشہیر کے بعد ویاگرا کو امریکہ اور برطانیہ میں متعارف کروایا گیا۔ یہ ایریکٹائل ڈسفنگشن کے علاج کے لیے تاریخ کی پہلی منظور شدہ دوا تھی۔ جلد یہ تاریخ کی سب سے تیز فروخت ہونے والی دوا بن گئی جس کی سالانہ فروخت 2008 میں اپنے عروج کو پہنچی، یعنی سالانہ قریب دو ارب ڈالر۔
اڈرس ان رضاکاروں میں سے تھے جنھوں نے ویاگرا بنانے میں مدد کی تھی۔ وہ اس کہانی سے لاعلم رہے مگر پھر دستاویزی فلم کیپنگ اِٹ اپ کے محققیق نے انھیں بتایا کہ ان کے قصبے نے اس سلسلے میں کس قدر اہم کردار ادا کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب مجھے اس بارے میں پتا چلا تو میں حیران رہ گیا۔ ویاگرا اب بڑی چیز بن چکی ہے۔۔۔ مجھے خوشی ہے کہ یہ ہمارے قصبے میں دریافت ہوئی تھی۔‘
ویاگرا کے شریک بانی ڈاکٹر ڈیوڈ براؤن نے کہا کہ جنوبی ویلز کے مرد نہ ہوتے تو آج ویاگرا کا وجود ہی نہ ہوتا۔ ’انھوں نے تاریخ رقم کی۔ شاید وہ کچھ آمدن کمانے کے لیے مجبور تھے۔ لیکن انھوں نے لوگوں کی زندگیوں میں بڑا فرق پیدا کیا۔ انھیں یہ سوچ کر اچھا محسوس کرنا چاہیے۔‘
برطانوی صحت عامہ کے ادارے این ایچ ایس کے مطابق ایستادگی سے محرومی یا ایریکٹائل ڈسفنگشن ایک عام بیماری ہے جو خاص کر 40 سال یا اس سے زیادہ عمر کے مردوں میں پائی جاتی ہے۔
بعض مطالعوں کے مطابق 40 سے 70 سال کی عمر کے قریب نصف مرد اس سے متاثر ہوتے ہیں، یعنی برطانیہ میں یہ تعداد 40 لاکھ ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق 2025 تک ایریکٹائل ڈسفنگشن سے متاثرہ مردوں کی تعداد 32 کروڑ 20 لاکھ ہوجائے گی۔ سنہ 1995 کے اندازوں کے مطابق یہ تعداد 15 کروڑ 20 لاکھ تھی مگر اب اس کے دگنا ہونے کا امکان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں
۔