’آپ لوگوں نے تماشا بنایا ہوا ہے۔ سیر و تفریح کرنے کے لیے آئے ہوئے ہیں،‘ تھانہ کوہسار کے ایک پولیس اہلکار فاروق نیازی بڑبڑاتے ہوئے نیشنل پریس کلب کے سامنے لگے کیمپ کے شرکا سے مخاطب ہوئے۔
اسلام آباد پریس کلب کے باہر میں نے یہ منظر اس وقت دیکھا جب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے شرکا نے مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف پریس کانفرنس کرنے کے لیے ایک نیا سپیکر منگوایا جسے وہاں موجود پولیس نے ضبط کر لیا۔ مظاہرین کے مطابق چند روز قبل اسلحہ بردار نامعلوم افراد ان کے کیمپ سے سپیکر چُرا کر لے گئے تھے اور جب اس بارے میں پولیس کو بتایا گیا تو انھوں نے واقعے سے لاعلمی ظاہر کی۔
وفاقی دارالحکومت میں پچھلے کئی دنوں سے بلوچ مظاہرین نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ خاندان بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہیں، جن میں زیادہ تر تعداد لڑکیوں، ضعیف خواتین اور بچوں کی ہے۔
ان کا مطالبہ ہے کہ ریاست کی جانب سے ان کے جن رشتہ داروں، بھائیوں اور شوہروں کو مبینہ طور پر گمشدہ کیا گیا ہے انھیں واپس لوٹایا جائے۔
اور اسی وجہ سے جمعرات کے روز پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کے پریس کانفرنس شروع ہوسکتی، پولیس سپیکر لے گئی۔
پولیس نے یہ کہہ کر شرکا کو سپیکر لگانے نہیں دیا کہ ’یہاں پر سپیکر پر بات کرنے کی اجازت نہیں۔۔۔ آپ لوگوں کو بڑے صاحب سے اجازت لینی پڑے گی۔‘
ابھی دونوں اطراف سے گرما گرمی جاری تھی کہ کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ وہاں پہنچیں اور پولیس اہلکار سے سپیکر واپس مانگا۔
پولیس اہلکار فاروق نیازی نے ایک بار پھر وہی جملہ دہرایا کہ ’یہ جگہ سیر و تفریح کے لیے نہیں ہے۔‘ ابھی یہی بات ہو رہی تھی کہ گود میں بچی اٹھائے ایک شخص نے اپنا تعارف بطور بیرسٹر احسن پیرزادہ کرایا اور پولیس افسر کو کہا کہ ’آپ کیسے الفاظ استعمال کر رہے ہیں؟ یہ لوگ آپ کو سیر و تفریح پر آئے ہوئے لوگ لگ رہے ہیں؟ ان کے لواحقین کئی سالوں سے گمشدہ ہیں۔ آپ کے اپنے بچے نہیں ہیں کیا؟‘
آس پاس کھڑے میڈیا اور عام شہریوں کی جانب سے ’شیم شیم‘ کی آواز سننے پر پولیس افسر نے اپنی آواز نیچی کی اور کہا کہ اجازت لے لیں۔ لیکن اتنی دیر میں ماہ رنگ بلوچ اور دیگر خواتین آگے بڑھیں او ر پولیس کی تحویل سے اپنا سپیکر گھسیٹتے ہوئے واپس کیمپ میں لے آئیں۔
اب باقاعدہ طور پر سیمینار اور پریس کانفرنس کا آغاز ہوا جس کے دوران کئی ضعیف والدین، بچے اور مائیں اپنے اپنے پیاروں کی گمشدگی کے بارے میں بات کرنے آئیں۔ کچھ بات کرتے ہوئے روپڑے اور کچھ کم بات کر کے چلے گئے۔
سائرہ بلوچ جو اس سیمینار کی میزبانی کر رہی تھیں ان کا تعلق خضدار سے ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے بھائیوں کو ان کے ’والدین کے سامنے نو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا اور بعد میں کہا کہ غلطی ہوگئی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میرے کزن کو لاپتہ کیا گیا۔ اس کے ناخن نکالے گئے، جو ان کو بچانے گئے انھیں بھی لاپتہ کر دیا گیا۔ بعد میں جب ہم سب نے شور کیا تو سی ٹی ڈی میں گرفتاری ظاہر کی گئی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میری فیملی خاص کر میری بہنوں کے پیچھے بڑی گاڑیوں میں آ کر پرچی پھینکی گئی۔ اس پرچی میں ’موت‘ لکھا ہوتا تھا۔‘
تربت سے آئے سبقط اللہ نے بتایا کہ ’ہمیں کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد کیوں نہیں آتے۔ ہمیں یہاں آکر پتا چلا کہ یہاں پر بلوچوں کے لیے صرف ڈنڈہ ہے۔ اسلام آباد پہنچنے پر پولیس کی طرف سے آدھی رات میں ہم پر لاٹھی چارج ہوا۔ ہماری بوڑھی ماؤں پر تشدد کیا گیا، لاتیں ماریں اور روڈ پر پھینک دیا۔ ہمیں بغیر ایف آئی آر کے رکھا گیا۔ ہماری ماؤں بہنوں کو گالیاں دی گئیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں پتا ہے کہ آپ کے دلوں میں ہمارے لیے نفرت ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ مذمت کریں، ہم کسی کی مذمت نہیں کریں گے، آپ بےشک آ کر ہمیں ماریں۔ آپ نے ہمارا قتلِ عام کیا آپ نے مذمت کی؟ ہمارے لوگوں کو وردی میں آکر اٹھاتے ہیں اور پھینکتے ہیں۔ یہ لوگ یہاں رونے کے لیے آئے ہیں، انھیں رونے دے دیں۔‘
اس کیمپ میں ایک حیران کن بات یہ بھی تھی کہ جب میں نے پہلی بار 2009 میں اسی طرح کے ایک کیمپ کا کراچی میں وزٹ کیا تھا، تب سمّی دین بلوچ 10 سال کی تھی۔ اور اب 14 سال بعد پھر ایک نئی جنریشن جس میں دس سے 11 سال کی بچیاں شامل ہیں، انھیں کیمپوں میں پلے کارڈ اٹھائے بیٹھی ہوئی ہیں۔
ماہ رنگ نے بتایا کہ یہاں آنے پر صرف پولیس کا ہی رویہ جارحانہ ہے لیکن عام لوگ بہت اچھے ہیں۔ ’یہاں پر ہر رات ہمارے لیے لوگ کھانا لے کر آتے ہیں۔ عورتیں اور بچیاں آکر ہمارے ساتھ بیٹھتی ہیں۔ ہماری باتیں سننا چاہتی ہیں۔ شاید یہی بات انتظامیہ سے برداشت نہیں ہو رہی۔ کیونکہ ایک لمبے عرصے تک پنجاب کے لوگوں کو کہا گیا کہ بلوچستان کے لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ اب سب کو سمجھ آچکا ہے کہ کچھ جھوٹ نہیں ہے۔‘
سمی دین بلوچ نے شرکا کو مخاطب کرتے ہوئے یہی بات کی۔ ’ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہمارے آنسو ڈرامہ ہیں، اور یہ بھی کہ ہمیں انڈیا پیسے دیتا ہے، ڈھونگ رچانے کے لیے۔ ہمیں پوچھا جاتا تھا کہ پنجاب سے تو بچے نہیں اٹھائے جاتے، ضرور آپ لوگ کچھ کرتے ہوگے۔ آج پنجاب سے بھی بچے اٹھائے جارہے ہیں۔‘
لرزتی ہوئی آواز سے سمّی نے کہا کہ ’ہمارے گمشدہ افراد کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ حالیہ نگراں حکومت نے کہا کہ یہ لاپتہ افراد کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بیویوں سے ناراض ہوکر گھر چھوڑ دیتے ہیں۔‘
سمّی نے کہا کہ ’علیحدگی پسند تو وہ لوگ ہیں جن کی رہائشی سوسائٹی الگ ہے، جن کے ادارے الگ ہیں۔ بلوچستان کو علیحدہ آپ نے کیا ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ قتلِ عام کا لفظ بہت بڑا ہے۔ ان سے میں کہوں گی کہ آپ بلوچستان آئیں۔ پھر آپ کو پتا چلے گا کہ یہ لفظ کہاں سے آیا ہے۔‘
اسی دوران ماہ رنگ بلوچ نے پریس کانفرنس کی۔ ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ وہ ریاست کو مذاکرات کے لیے اگلے سات دنوں کا وقت دے رہی ہیں۔ ’اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی سربراہی میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ایک فیکٹ فائنڈنگ مشِن بنایا جائے۔‘
انھوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتیں ختم کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ کی موجودگی میں معاہدے پر دستخط کیا جائے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’تمام لاپتہ اور جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد کو رہا کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے بنائے گئے ادارے سی ٹی ڈی کو ختم کیا جائے۔
’ڈیتھ سکواڈ کو ختم کیا جائے اور اس کا تحریری اعلامیہ جاری کیا جائے۔ جبری طور پر لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کا اعتراف کیا جائے۔ تمام مظاہرین کے خلاف جعلی ایف آئی آر واپس لی جائیں۔‘
خیال رہے کہ اتوار کو نگراں وزیر اطلاعات مرتضی سولنگی نے کہا تھا کہ مظاہرین کی ترجیح ہے کہ وہ وہاں (پریس کلب کے سامنے) بیٹھ کر پُرامن احتجاج کریں گے۔ پرامن احتجاج کی ہر ایک کو اجازت ہے، ہماری کوشش ہے کہ مظاہرین کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‘
سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی قائم کردہ مذاکراتی کمیٹی کے مظاہرین سے مذاکرات ہوئے تھے اور مظاہرین کے مطالبات ’کئی دہائیوں پرانے ہیں۔‘
مرتضی سولنگی نے کہا تھا کہ ’ہم ان کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ مظاہرین عزت، وقار اور سلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس جائیں، بقیہ مذاکرات اسلام آباد کی بجائے بلوچستان یا کوئٹہ میں ہوں۔
’ہم بلوچستان جا کر ان کے ساتھ بات کریں گے، ہماری کوشش ہے کہ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کے حل کی طرف جائیں۔‘
بی بی سی اردو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں