تین دہائیوں پر پھیلی دھند چھٹنے کو تھی۔ ایک ممکنہ فتح پاکستان کی منتظر تھی اور مدتوں بعد پاکستان تاریخ کے دہانے پر کھڑا تھا مگر عین موقع پر تھرڈ امپائر رچرڈ النگ ورتھ بیچ میں آ گئے۔
آسٹریلوی کیمپ کے اعصاب تنے ہوئے تھے۔ جو مزاحمت پاکستان نے دکھائی، وہ پیٹ کمنز کی توقعات سے کہیں زیادہ تھی۔ اگرچہ پاکستانی اوپنرز کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا مگر شان مسعود اپنے عزم پر قائم رہے۔
شان نے کریز پر آتے ہی سکور بورڈ میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ یہ آسٹریلوی اٹیک پاکستانی بیٹنگ پر یکطرفہ برتری کا اس قدر خوگر ہو چکا ہے کہ شان مسعود کی جارحیت اس کے لیے واقعی اچنبھے کی بات تھی۔
شان مسعود کی اننگز میں وہ روانی تھی کہ پہلی بار آسٹریلوی بولنگ دباؤ میں نظر آئی۔ پیٹ کمنز کے پلان گڑبڑانے لگے اور فیلڈرز بھی پریشان دکھائی دیے کہ رنز کے اس بہاؤ کو مسدود کیونکر کیا جائے۔
بابر اعظم بدقسمت رہے کہ ایک بار پھر بہت اچھی گیند ان کے حصے میں آ گئی وگرنہ وہ بھی اپنے تئیں اس میچ میں پاکستان کی امیدیں روشن کیے رہے لیکن پاکستان کا اصل جوابی وار تب شروع ہوا جب محمد رضوان کریز پر آئے۔
محمد رضوان کی اننگز کبھی بھی دھیمی نہیں چلتی، وہ ہمہ وقت سرگرم رہتے ہیں اور اپنے حریف بولرز کو قدم جمانے نہیں دیتے۔ نیتھن لیون کی گیند پر جیسے ایک چھکے سے انھوں نے اپنی اننگز کا آغاز کیا، وہ اس عزم کا عکاس تھا کہ پاکستان اس ہدف کے تعاقب میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑے گا۔
اور یہ ساجھے داری میچ کو اس نہج تک لے آئی کہ دن اپنے اختتامی مراحل میں آن پہنچا، آسٹریلوی بولرز کے قدم تھکاوٹ سے چور ہو رہے تھے اور میلبرن کے بڑھتے سائے کینگروز کی امیدوں پر بھی چھانے لگے۔
مطلوبہ ہدف 100 رنز سے کم رہ گیا تھا، پاکستان کی پانچ وکٹیں باقی تھیں اور آسٹریلوی پیسرز کو نئی گیند ملنے میں اتنا وقت باقی تھا کہ پانچویں صبح بھی پاکستانی بیٹنگ پہلا ایک گھنٹہ اعتماد کے ساتھ گزار جاتی۔
لیکن تب وہ لمحہ آیا جہاں تھرڈ امپائر بیچ میں آئے اور اس ساری کہانی کو سر کے بل پٹخ کر رکھ دیا۔
پیٹ کمنز کی وہ گیند ہارڈ لینتھ سے اچانک ایسا غیر متوقع باؤنس لے کر اٹھی کہ رضوان کو اسے چھوڑنے کے لیے پیچھے ہٹنا پڑا، گیند پوری شدت سے رضوان کے بازو پر ٹکرائی اور ایسا نشان چھوڑ گئی جسے جانچنے کے لیے کسی ہاٹ سپاٹ ٹیکنالوجی یا سنیکو میٹر کی قطعی ضرورت نہ تھی۔
آن فیلڈ امپائر مائیکل گف نے پورے یقین سے وہ اپیل مسترد کی۔ لگ بھگ پوری آسٹریلوی الیون کو بھی یقین تھا کہ گیند بلے سے کوسوں دور رہی اور پیٹ کمنز نے جو ریویو لیا، وہ فقط فرسٹریشن کے سبب لیا ورنہ ان کے چہرے پر بھی مکمل ناامیدی نقش تھی۔
آئی سی سی کی پلئینگ کنڈیشنز کہتی ہیں کہ ریویو سسٹم میں تھرڈ امپائر تب تک آن فیلڈ امپائر کا فیصلہ رد نہیں کر سکتا جب تک اس کے پاس کوئی ٹھوس، حتمی ثبوت نہ ہو۔ رچرڈ النگ ورتھ نے اپنے تئیں کئی کیمرہ اینگل گھما کر کوئی ثبوت ڈھونڈنے کی کوشش جاری رکھی۔
اور بالآخر جس بنیاد پر انھوں نے محمد رضوان کو آؤٹ قرار دیا، وہ کئی شائقین کرکٹ سمیت کمنٹری باکس میں بیٹھے ایڈم گلکرسٹ کے لیے بھی اچنبھے کا باعث تھا کہ اس کیمرہ اینگل کی حدود و قیود کے پیشِ نظر اسے کوئی ٹھوس ثبوت ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔
یہ ٹیسٹ کرکٹ کی بدقسمتی ہے کہ گاہے بگاہے کبھی علیم ڈار تو کبھی رچرڈ النگ ورتھ کی شکل میں کوئی نہ کوئی امپائر اس کھیل کی مسابقت پر حاوی ہوتا رہتا ہے اور پھر اپنے اعمال کے نتائج سے بھی بری الذمہ رہ جاتا ہے۔
اگر النگ ورتھ بیچ میں نہ آتے تو بھی ممکن ہے یہ میچ اور سیریز آسٹریلیا کے نام ہی ہوتی کہ پاکستان نے جہاں فیلڈنگ میں سنگین حماقتیں رقم کیں، وہیں آج صبح کے سیشن میں نئی گیند ملنے تک میر حمزہ کو اٹیک سے باہر رکھنے کی ناقابلِ فہم حکمت عملی بھی اپنائی۔
لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ کھیل تمام ہونے پر بحث آسٹریلوی کرکٹ کے محاسن اور پاکستان کے نقائص پر ہوتی چہ جائیکہ ایک متنازعہ فیصلے کی بدولت ساری شہ سرخیاں تھرڈ امپائر چرا لے جاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں