انور جلال پوری نے ابتدائی تعلیم قصبہ جلال پور میں حاصل کیا اس کے بعد اعظم گڑھ کے شبلی نیشنل کالج میں داخلہ لیا اور وہیں سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کیا۔ دارالمصنفین سے خاص فائدہ اٹھایا اور وہاں کی متعدد کتابوں کا مطالعہ کیا خاص طور سے اردو زبان ادب کی اہم شخصیات جس میں علامہ اقبال ، مرزا غالب، میر تقی میر ، سودا سے خاص متاثر رہے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا جہاں پر انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور وہیں سے شعر و شاعری کا ذوق پروان چڑھا۔ انور جلال پوری کے اہم ساتھیوں میں اردو کے معروف شاعر بشیر بدر ، علی سردار جعفری، ال احمد سرور، ملک زادہ منظور ، وسیم بریلوی، منور رانا اور راحت اندوری رہے ہیں وہ نہ صرف شعر و سخن کی دنیا میں منفرد مقام رکھتے تھے بلکہ اردو نثر نگاری میں بھی امتیازی شناخت حاصل تھا ان کا سب سے بڑا کارنامہ شریمد بھگوت گیتا کا منظوم اردو ترجمہ تھا ہے جسے ملکی سطح پر خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے قرآن شریف کے آخری پارہ عم کا منظوماردو ترجمہ کیا اس کے علاوہ نعت ،حمد ،سلام اور کئی غزلیں لکھیں۔ انہوں نے ڈیڑھ عشقیہ فلم میں نصیر الدین شاہ کے ساتھ بھی ایکٹنگ کی جو بہت پسند کیا گیا۔
ڈاکٹر جانثار عالم نے بتایا کہ انور جلال پوری نے تعلیم سے فراغت کے بعد ہی اپنے قصبہ جلال پور میں ایک انٹر کالج کی بنیاد رکھی تھی جس کا نام مرزا غالب انٹر کالج رکھا ہے وہ نہ صرف بہترین شاعر تھے بلکہ ماہر تعلیم بھی تھے۔ انہوں نے قومی و بین الاقوامی سطح پر اردو کی شاندار نمائندگی کی ہے انہیں کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھا انہوں نے گنگا جمنی تہذیب کے فروغ پر بہت اہم کام کیا ہمیشہ سماج میں امن بھائی چارہ اخوۃ و محبت کو عام کرنے کی کوشش کی فکر میں رہتے تھے۔ بی ایس پی دور اقتدار میں یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ کے چیئرمین کے عہدے پر بھی دو برس خدمت انجام دی۔
ڈاکٹر جانثار نے بتایا کہ کم ہی لوگوں کو اس بارے میں معلوم ہوگا کہ مرحوم انور جلال پوری کو دارہ شکوہ سے بھی تشبیہ دیا جاتی ہے کہ جس طریقے سے انور جلال پور نے شریمد بھگوت گیتا کا منظوم اردو میں ترجمہ کیا اسی طرح مغل بادشاہ شاہجہاں کے شہزادے دارہ شکوہ نے مجمع البحرین کتاب تصنیف کی جس میں اسلام اور ہندو مذہب کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے اور اپنشد و ویدوں کا بھی حوالہ دیا ہے۔
ڈاکٹر جا نثار عالم نے مزید کہا کہ کہ ایک دن میری امی یعنی اپنی اہلیہ کو انہوں نے بلایا اور یہ اشعار کہنے لگے کہ
میں جا رہا ہوں میرا انتظار مت کرنا
میرے لیے کبھی دل سوگوار مت کرنا
میری جدائی تیرے دل کی ازمائش ہے
اس ائینے کو کبھی شرمشار مت کرنا
یہ اشعار انہوں نے اس وقت سنایا تھا جب وہ دنیا چھوڑنے والے تھے یعنی ان کو احساس ہو گیا تھا کہ اب زیادہ دن یہاں نہیں رہنا ہے اور نہایت حساس طبیعت کے مالک تھے انہوں نے اپنی شاعری میں زندگی کے ہر پہلو ،معاشرے اور سماج کے غالبا سبھی موضوعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے اپنی شاعری میں یہ بھی کہا ہے کہ ہم نے اپنے اشعار میں قصہ کہانی نہیں بیان کیا ہے بلکہ اپنے ارد گرد ہو رہے ہیں حوادثات تبدیلیاں تغیرات اور زمانے کے تقاضے کو دیکھ کر ہی اشعار کہے ہیں۔
میرے بستی کے لوگوں اب نہ روکو راستہ میرا
میں سب کچھ چھوڑ کر جاتا ہوں دیکھو حوصلہ میرا
کچھ وصف تو ہوتا ہے دماغوں میں دلوں میں
یوں ہی کوئی سقراط سکندر نہیں ہوتا
گلوں کے بیچ مانندے خار میں بھی تھا
فقیر تھا مگر شاندار میں بھی تھا
کوئی پوچھے گا جس دن واقعی یہ زندگی کیا ہے
زمین سے ایک مٹھی خاک کے لے کر ہم اڑا دیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں