الحمد للہ رب العالمین، وصلی اللہ وسلم علی الہادي الأمين، محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعين، ومن تبعہم بإحسان إلی يوم الدين، أما بعد!
فأعوذ باللہ من الشيطان الرجيم، بسم اللہ الرحمن الرحيم: ”سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ“، صدق اللہ العظيم.
بیت المقدس وہ مقدس مقام ہے جو مسلمانوں ، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے یکساں طور پر متبرک ہے ، یہیں معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم بالا کا سفر کرایا گیا ، پیغمبر اسلام علیہ السلام نے نبوت کے بعد سولہ ماہ سے زیادہ عرصہ تک اسی طرف رُخ کر کے نماز ادا فرمائی ، اس لئے یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ، بعض روایتوں سے معلوم ہوا ہے کہ بیت اللہ شریف کی تعمیر کے کچھ عرصہ بعد سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نے بیت المقدس کی بھی تعمیر فرمائی تھی ، حضرت صالح علیہ السلام ، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت داؤدعلیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت زکریاعلیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت مسیح علیہ السلام اور کتنے ہی انبیاء کرام کی حیات طیبہ اس مبارک مقام سے متعلق رہی ہے ، شہر بیت المقدس کے قرب و جوار میں بھی مختلف علاقے ہیں ، جو مختلف پیغمبروں سے منسوب ہیں ، اسی لئے اسلام کی نگاہ میں اس شہر اوراس مسجد کی خاص اہمیت ہے ۔
ایک صحابیؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المقدس کے بارے میں دریافت کیا توآپ نے فرمایا : یہ حشر و نشر کی سر زمین ہے ، یہاں آؤ اور نماز ادا کرو کہ اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنا دوسری مسجدوں میں ایک ہزار نماز ادا کرنے کے برابر ہے ، ان صحابیؓ نے استفسار کیا : اگر میرے اندر وہاں تک جانے کی استطاعت نہ ہو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کم سے کم تیل کا ہدیہ ہی بھیج دو، جو وہاں چراغ میں کام آئے ،( ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۱۰۴۵) آپ علیہ السلام نے فرمایا : جب حضرت سلیمان علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے دُعاء فرمائی ، اس میں ایک دُعاء ایسی حکومت کی تھی جو آپ کے بعد کسی کو میسر نہ آئے اور اس میں ایک دُعاء یہ بھی تھی کہ جو اس مسجد میں صرف نماز کے لئے آئے ، تو اس کے گناہ اس طرح معاف ہو جائیں کہ گویا وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین دُعاؤں میں سے دو تو مقبول ہو ہی گئیں اور مجھے اُمید ہے کہ یہ تیسری دُعاء جو مغفرت سے متعلق تھی ، وہ بھی مقبول ہوگئی ہوگی۔ ( ابن ماجہ، حدیث نمبر : ۱۴۰۶) اور یہ روایت تو حدیث کی متعدد کتابوں میں وارد ہے کہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ خاص طور پر تین ہی مسجدوں کے لئے سفر کرنا درست ہے ، مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ( ابن ماجہ،حدیث نمبر : ۱۴۰۸ / ۱۴۰۷) اس لئے مسلمانوں کو اس مقدس اور متبرک مقام سے ہمیشہ قلبی اور جذباتی تعلق رہا ہے ۔
یہودیوں کا یہ دعوی ہے کہ وہ اسرائیل کی ریاست تشکیل دے کر در اصل خدائی حکم کو پورا کررہے ہیں، یہ ان کی آبائی زمین ہے جہاں وہ لوٹے ہیں، اور انہیں یہاں ریاست قائم کرنے کا مکمل حق ہے، حالانکہ فلسطین میں موجود آباد عرب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں، اور انہی کے زمانے سے یہاں آباد ہیں، یہود تو بہت بعد کی چیز ہیں، لہذا فلسطین کی زمین پر زیادہ حق عرب فلسطینیوں کا ہے جو اپنی آزادی اور بقا کے لیے ایک مدت سے یہودیوں سے بر سر پیکار ہیں۔اسلام سے پہلے یہ شہر بار بار تخت و تاراج کیا جاتا رہا، خاص کر چھٹی صدی قبل مسیح بابل کے حکمراں بخت نصر نے اس شہر اور اس کے مقدس مقامات کی جس طرح اینٹ سے اینٹ بجائی اور ایک لاکھ یہودیوں کو قید کر کے بابل لے گیا ، وہ تاریخ کے اہم واقعات میں سے ایک ہے ، یہودی جو اپنے آ پ کو اس شہر کا اصل وارث سمجھتے ہیں ، صرف تہتر ۷۳ سال ہی اس شہر پر برسر اقتدار رہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں ۶۳۶ء میں بیت المقدس کا علاقہ حضرت عمروبن العاص اور حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہما نے فتح کیا ، مسلمان چاہتے تھے کہ شہر میں خون ریزی نہ ہو اور صلح کی صورت نکل آئے ، عیسائیوں نے یہ شرط لگائی کہ خلیفۃ المسلمین خود آکر دستاویز پر دستخط کریں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے قبول فرمالیا اور مدینہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا قائم مقام بنا کر رجب ۱۶ء میں بیت المقدس تشریف لائے ، بیت المقدس سے پہلے ہی’ جابیہ‘ نامی مقام پر اسلامی لشکر نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کااستقبال کیا ، وہیں عیسائی رہنما بھی آگئے اور معاہدۂ صلح کی تحریر عمل میں آئی ، اس معاہدہ کے تحت عیسائی باشندوں کی جان ومال ، مذہبی مقامات ، حضرت مسیح کی مورتیوں وغیرہ کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ؛ بلکہ عیسائی یہودیوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی اس خواہش کو بھی قبول فرمایا اور یہودیوں کی الگ آبادی بنائی گئی ۔
اس کے بعد سے یہاں برابر مسلمان حکمراں رہے، یہاں تک کہ گیارہویں صدی عیسوی میں صلیبی جنگیں شروع ہوئیں اور ۲۳؍ شعبان ۴۹۲ھ کو عیسائی دوبارہ فاتحانہ بیت المقدس میں داخل ہوئے ، انھوں نے شہر میں ایسا قتل عام مچایا کہ بچے ، بوڑھے ، جوان اور مرد و عورت کو بلاامتیاز تہہ تیغ کیا گیا ، شہر میں لاشوں کے انبار لگ گئے ، خود مغربی مؤرخین نے اس خوں آشامی کا اعتراف کیا ہے ، کہا جاتا ہے کہ صرف ایک دن میں شہر اور اس کے مضافات میں ستر ہزارافراد شہید کئے گئے ،خود مغربی مؤرخین کے بقول گلیاں فلسطینیوں کے خون سے گھٹنوں تک بھر گئی تھیں، یہ سفا کانہ رویہ ٹھیک اس کے برعکس تھا ، جو حضرت عمر اور مسلمان فاتحین نے عیسائیوں کے ساتھ روا رکھا تھا ، سقوط بیت المقدس کے اس واقعہ نے پورے عالم اسلام کو بے چین اور بے سکون کر کے رکھ دیا ، یہاں تک کہ ۱۱۶۹ء میں سلطان نورالدین زنگی جیسے خدا ترس بادشاہ کے ایک کمانڈر مجاہد اسلام سلطان صلاح الدین ایوبیؒ مصرکے تخت اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے اور شام کے علاقے فتح کر تے ہوئے ۱۱۸۷ ء میں بیت المقدس کو فتح کیا ، صلاح الدین ایوبیؒ نے احسان فراموش عیسائیوں کے ساتھ ایسی رحم دلی کا سلوک کیا کہ تاریخ میں اس کی مثال کم ملے گی ؛ چنانچہ خود عیسائی دنیا (جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میںطرح طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا تھی) پر اس کا گہرا اثر پڑا ، آخر اکیانوے (۹۱) سال کے بعد قبۃ الصخرہ پر لگائی گئی سنہری صلیب اُتاری گئی اور اس کی جگہ ’ہلال‘ نصب کیا گیا ، جب ہی سے’ ہلال‘ مسلم ملکوں کا شعار سمجھا جانے لگا ، یہ اکیانوے سال مسلمانوں کے لئے ایسا تکلیف دہ اور غم انگیز عرصہ تھا کہ پورے عالم اسلام کی آنکھیں بے سکون اور دل بے قرار تھے ۔
خلافت عثمانیہ ترکی کے دور میں ہی یہودیوں نے سازشیں رچنی شروع کردی تھیں ؛ لیکن خلیفہ نے کسی قیمت پر یہودیوں کو فلسطین میں زمین خریدنے کی اجازت نہیں دی ، بالآخر مغربی سازشوں سے خلافت عثمانیہ کا سقوط ہوا اور ۱۹۴۸ء میں عالم اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپ دیا گیا ، یہ زخم بڑھتا رہا ، یہاں تک کہ ۱۹۶۷ء میں مسلمانوں کا قبلہ اول ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا ، پہلی صلیبی جنگ کی شکست اور خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد مسلمانوں کے لئے یہ سب سے بڑا حادثہ اور سب سے اندوہ ناک سانحہ تھا ، کہ اگر اس واقعہ پر آسمان خون کے آنسو بہاتا اور زمین کا سینہ شق ہوجاتا تو بھی باعث تعجب نہ تھا ؛ لیکن آہ ! ہم مسلمانوں کی بے حسی اور بے شعوری کہ ہماری نسلوں نے تو اس واقعہ کو بھی اپنے صفحہ دل سے مٹا دیا ہے اور مسلمان حکومتوں بالخصوص عرب حکمرانوں نے اس مقدس امانت کو سونے کے طشت میں سجاکر صہیونیوں کے حوالہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اگر مسلمان عوام کی دینی حمیت آڑے نہ آتی اور حماس کے مجاہدین نہ اٹھ کھڑے ہوتے تو شاید فلسطین صفحۂ ہستی سے مٹ چکا ہوتا۔
اس وقت غزہ کے نہتے اور محصور لوگوں پر ظلم کے جو پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں ،وہ درندوں کو بھی شرمندہ کرنے والا ہے، اگرچہ اس میں معصوم بچوں، عورتوں اور بہت سے نہتے لوگوں کی جانیں جارہی ہیں اور اسلام دشمن طاقتیں شادیانے بجارہی ہیں؛ لیکن حقیقت میں یہ فلسطین کے مظلوموں کی فتح ہے، اس جنگ نے اسرائیل کی درندگی اور لاقانونیت کو پوری طرح واضح کردیا ہے، کسی کو باندھ کر اس کو ظلم کا نشانہ بنانا بہادری نہیں بزدلی ہے، ۷ اکتوبر کے واقعے نے واضح کردیا ہے کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے،عالم کفر کے سامنے یہ زمین کا ایک چھوٹا سا خطہ سینہ تانے کھڑا ہے، اس جنگ کے نتیجہ میں فلسطینی مسلمانوں کے اندر جو جذبۂ قربانی پیدا ہوا ہےاور جس شوق کے ساتھ مسکراتے ہوئے وہ جامِ شہادت نوش کررہے ہیں ،وہ عہد صحابہ کی یاد تازہ کررہا ہے اور یہ فلسطینیوں کی اخلاقی فتح ہے، پوری دنیا کے مسلمانوں پر استطاعت کے مطابق ان مظلوم بھائیوں کی مدد کرنا واجب ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو مسلمان اپنے ان مظلوم اور نہتے بھائیوں کی اخلاقی مدد کرنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتے ، انھیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اُصول بیان فرمادیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی برائی کو دیکھے تو اول اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے ، اگر اس پر قادر نہ ہو تو زبان سے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل سے روکے، یعنی دل سے برا سمجھے ، اور دل میں یہ ارادہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ جب بھی قدرت دیں گے ، وہ اُسے روکنے کی کوشش کرے گا ( ابو داؤد ، حدیث نمبر : ۴۳۴) ظلم و جور سے بڑھ کر کوئی بُرائی نہیں ، یہ تو دنیا میں شرک سے بھی بڑھ کر ہے ؛ کیوں کہ دنیوی احکام کی حد تک شرک کو گوارا کیا جاسکتا ہے ؛ لیکن ظلم ایسی بُرائی ہے ، کہ وہ کسی طور پرقابل قبول نہیں ،کفر ایسا جرم نہیں کہ جو شخص پہلے سے اس عقیدہ پر ہو ، اُسے قتل کرنا جائز ہو ؛ لیکن اگر کوئی شخص کسی کا مال لے لے ، کسی کی عزت و آبر وپر حملہ آور ہو ، یاکسی کو قتل کر دے تو وہ ضرور لائقِ سزا ہے ، پس ظلم سب سے بڑی بُرائی ہے اوراپنی طاقت وصلاحیت بھر اس کی مخالفت واجب ہے !
مخالفت اور ناراضگی کے اظہار کا ایک طریقہ ترک تعلق بھی ہے اور ظالموں کے ساتھ ترک تعلق کی تعلیم خود قرآن مجید نے دی ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’اے ایمان والو ! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست رکھے گا ، وہ ان ہی میں سے ہوگا، بے شک اللہ ظلم شعار لوگوں کو ہدایت نہیں دیتے ۔‘‘( المائدۃ : ۵۱)
اس آیت میں ایک جامع لفظ ’’ دوست نہ بنانے ‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے ، یہ ایک معنی خیز تعبیر ہے ، جس میں قلب و نگاہ کی محبت ، فکر و نظر کا تاثر، سماجی زندگی کی مماثلت اور مالی معاملات و تعلقات سب شامل ہیں ، یہ کوئی شدت پر مبنی حکم نہیں ہے ؛ بلکہ ظلم کے خلاف ناراضگی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے ، اس آیت کے اخیر میںظالموں کا تذکرہ کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ جو یہود و نصاریٰ یا کوئی اور غیر مسلم ظلم و جور پر کمر بستہ ہوں ، مسلمانوں کے لئے اپنی طاقت وقدرت کے مطابق ان سے بے تعلقی برتنا واجب ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع پر اس حکم کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، ارشاد ہے :
’’بے شک اللہ تم لوگوں کو ا ن لوگوں سے تعلق رکھنے سے منع کرتے ہیں ، جنھو ںنے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ، تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی اور جو اُن سے تعلق رکھیں ، وہ بھی ظالم ہیں۔‘‘(الممتحنۃ : ۹)
گھروںسے نکالنا ، محض دین کی بناپر آمادۂ قتل وقتال ہونا اور جو لوگ مسلمانوں کے شہروں او رآبادیوں کو ویران کرنے پر تلے ہوئے ہوں، ان کو مدد پہنچا نا ، یہ وہ اوصاف ہیں جن کے حامل بد طینت یہودیوں سے بے تعلقی برتنے کا حکم دیا گیا ہے ، غور کیجئے کہ کیا آج اسرائیل سے بڑھ کر کوئی اس کا مصداق ہے؟ جو آئے دن بے قصور فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کرتاہےاور جس نے لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے مادر وطن میں رہنے کے حق سے بھی محروم کر دیا ہے ، قرآن نے جن یہودو نصاریٰ سے بے تعلق ہونے اور رشتۂ محبت کاٹ لینے کا حکم دیا ہے ،اسرائیل اور اس کی حامی وناصر طاقتوں میں ان میں سے کون سی بات نہیں پائی جاتی ؟
لیکن جو غیر مسلم بھائی امن وانصاف کے اصولوں پر قائم ہیں ، ان کے ساتھ بہتر سلوک ہمارا فریضہ ہے:
’’اللہ تعالیٰ تمہیں ان (غیر مسلموں )کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف سے نہیںروکتا ، جنھوںنے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہ کی ہو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا ہو ،بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔‘‘(الممتحنۃ : ۸)
جو غیر مسلم بھائی انصاف کی روش پر قائم ہوں ، وہ ہمارے انسانی بھائی ہیں اور ہمارے برادرانہ سلوک اور حسن اخلاق کے مستحق ہیں ان کے ساتھ زیادتی کسی طور جائز نہیں،بے تعلقی کاحکم ان لوگوں سے ہے ، جنھوںنے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جارحانہ اورنامنصفانہ روش اختیار کر رکھی ہو ،اسرائیل کے اس ظلم کا نشانہ صرف فلسطینی نہیں ہیں، بلکہ ان کا اصل نشانہ اسلام ہے، قرآن نے یہود و نصاریٰ کی نفسیات اور ان کے اندرونی جذبات کی خوب ترجمانی کی ہے اور یہ بات جس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مبنی بر واقعہ تھی ، اسی قدر آج بھی ہے کہ :
’’یہود و نصاری آپ سے اس وقت تک راضی ہو ہی نہیں سکتے ، جب تک آپ ان کے دین کے پیرو نہ ہو جائیں ، آپ کہہ دیجئے کہ ہدایت تو وہ ہے جو اللہ کی ہے ، اگر آپ علم حاصل ہونے کے بعد بھی ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگیں تو آپ کے لئے اللہ کے مقابلہ کوئی حامی و مددگار نہ ہوگا ۔ ‘‘( البقرۃ : ۱۲۰)
قرآن نے اس میں یہود و نصاری کے اندرونی جذبات کو کھول کر رکھ دیا ہے اور خلافت عثمانیہ کے سقوط سے اب تک عالم اسلام میں جو جنگیں ہوئی ہیں، وہ سب اس کے واضح شواہد ہیں ، اس لئے جب تک مسلمان اپنے مذہبی تشخصات اور اپنے ثقافتی امتیازات کو خیر باد نہ کہہ دیں اور پوری طرح مغربی فکر اور مغربی ثقافت کے سامنے جبینِ تسلیم خم نہ کردیں ، ان کی تشفی نہیں ہو سکتی اور ان شاء اللہ مسلمان کبھی اس کے لئے تیار نہیں ہوں گے اس لئے کہ وہ دین کے لئے سب کچھ کھونے کو ’’پانا‘‘ اور اللہ کی راہ میں رگِ گلو کٹانے کو ’’ جینا ‘‘ تصور کرتے ہیں اور یہ ان کے ایمان و عقیدہ کا حصہ ہے !
موجودہ دور میں حقیقت حال سے واضح طور پر رخ موڑا جارہا ہے، حق کو باطل اور باطل کو حق گردانا جارہا ہے، ظالم کی حوصلہ افزائی اور اس کی پشت پناہی کی جارہی ہے، جب کہ مظلوموں کو پوری طرح کچلنے کی کوششیں پوری قوت سے جاری ہیں، ان دنوں حماس اور اسرائیل کے درمیان جو جنگ جاری ہے، وہ بہت افسوسناک اور تکلیف دہ ہے اور یہ واضح طور پر اسرائیل کی بد عہدی اور اس کی طرف سے ہونے والی زیادتی اور مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا فطری رد عمل ہے، اس رد عمل کو دہشت گردی کہنا ظالموں کو طاقت پہنچانا اور مظلوموں کے ساتھ ناانصافی کرناہے، حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے، جس کو مغربی طاقتوں نے خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد جبر واستبداد کے زیر سایہ قائم کیا اور افسوس کہ اس کے بعد بھی اسرائیل نے اپنی سرحدوں پر قناعت نہیں کی، جیسا کہ پچھلے اوراق میں اس کی وضاحت ہوئی؛ بلکہ 1967ء میں ہمسایہ ملکوں کے وسیع رقبہ پر بزور قوت قبضہ کر لیا۔
اس کے بعد اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے متعدد بار فیصلہ کیا کہ اسرائیل 1967ء والی سرحدوں پر واپس چلا جائے؛ مگر اس نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور افسوس کہ بڑی طاقتوں نے اِن سب کے باوجود اسرائیل کی پشت پناہی کی اور اسرائیل کے کھلے ہوئے ظلم کی تائید کرتے رہے، ہندوستان کی جواہر لال نہرو سے لے کر آج تک بشمول اٹل بہاری واجپائی یہی پالیسی رہی کہ اسرائیل کو اقوام متحدہ کی تجویز پر عمل کرنا چاہئے؛ مگر افسوس کہ ملک کے موجودہ وزیر اعظم مودی جی ہندوستان کی روایت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مظلوم کے بجائے ظالم کی تائید میں کھڑے ہوگئے اور ببانگ دہل اس کا اعلان کیا، یہ بہت شرمناک اور پوری قوم کے لئے افسوسناک ہے، حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حماس اور اسرائیل جنگ کا اصل سبب اسرائیل ہے، فلسطینی اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا دفاع کر رہے ہیں اور اس کا حل یہی ہے کہ فوری طور پر جنگ بندی ہو، اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہو اور فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کے ساتھ انصاف ہو۔
اس پس منظر میں ہم مسلمانانِ ہند قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ ملک کی رائے عامہ کو حقیقت پسند بنائیں اور انھیں حقیقی صورتِ حال کا ادراک کرنے میں مدد دیں ، منصف مزاج ہندو بھائیوں ( جن کی آج بھی اس ملک میں اکثریت ہے) کو ساتھ لے کر حکومت ہند سے خواہش کریں کہ وہ اپنی ناوابستہ پالیسی پر قائم رہے اوراسرائیل کی حمایت سے باز رہے، وہ ظالم اور مظلوم کو ایک پلڑے میں نہ رکھے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم اسرائیلی کمپنیوں کی تجارتی اشیاء کا بائیکاٹ کریں کہ یہ بھی منکر پر ناراضگی کے اظہار اور ظالم سے بے تعلقی برتنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے، اور شرعاً بہ حیثیت مسلمان ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ اس سلسلہ میں جو طریقہ اختیار کرنا ہمارے لئے ممکن ہو ، ہم اس سے دریغ نہ کریں ، یہ انسانی فریضہ ہے ، یہ شرعی ذمہ داری ہے اور حمیت ایمانی اور غیرت اسلامی للکار کر ہم سے پوچھ رہی ہے کہ کیا ہم اس کے لئے بھی تیار نہیں ہیں ؟؟