بھارتی ریاست ہماچل پردیش کے گاؤں خان یارا میں لیلا دیوی کے خاندان نے اس سال موسم گرما میں ہمالیہ کے پہاڑوں پر شدید بارشوں میں اپنا گھر منہدم ہوجانے کے بعدنسبتاً نچلی ڈھلان پر ایک نیا گھر اس امید میں بنایا تھا کہ اگر دوبارہ سیلابی ریلے آئے بھی تو وہ پہلے سے زیادہ محفوظ ہوں گے ۔
لیکن وہ ابھی تک پہاڑی سے پانی کے ریلوں کا ہر چیز بہا کر لے جانا اور ملبوں کا گرنا فراموش نہیں کر سکے ہیں۔ لیلا کہتی ہیں ہم دعا کرتے ہیں کہ ایسا پھر کبھی نہ ہو۔
لیلا دیوی کا خاندان ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہے جو اس سال بھارت کے ہمالیائی خطے میں غیر معمولی قدرتی آفات کےایک سلسلے سے متاثر ہوئے تھے ۔
اس تباہی نے یہ سوال اٹھائے ہیں کہ آیا آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ بڑے پیمانے پر انفرااسٹرکچر کی تعمیر سے یہ پہاڑ قدرتی آفات کا مزید شکارتو نہیں ہو جائیں گے؟
ماحولیاتی تباہی کا ذمہ دار کون؟
بھارت نے حالیہ برسوں میں ہمالیہ کے پہاڑوں میں بڑی تیزی سے شاہراہیں، ہائیڈرو الیکٹریکل ڈیم ، پل اور ریلوے لائنیں تعمیر کی ہیں ۔
ماحولیات کے ماہرین کہتے ہیں پہاڑی مقامات کو دھماکوں سے اڑایا جا رہا ہے، سرنگیں کھودی جا رہی ہیں اور درختو ں کو ایک ایسے وقت میں کاٹا جا رہا ہے جب گلوبل وارمنگ بارشوں کی شدت میں اضافے اور گلیشئیرز کے پگھلنے کی وجہ بن رہی ہے۔
حیدرآباد کے انڈین اسکول آف بزنس میں بھارتی انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے ایک ریسرچ ڈائیریکٹر انجل پرکاش کا کہنا ہے کہ جب ان پراجیکٹس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی تو آب و ہوا کی تبدیلی کو پیش نظر نہیں رکھا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ کیا ہوگا اگر ہمالیہ کے پہاڑوں پر صرف دو دن میں 250 ملی میٹر بارش ہو جائے جیسا کہ اس وقت ہورہی ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ سڑکوں کے انفرا اسٹرکچر ،سرنگوں کے انفرا اسٹڑکچر میں ان نئی حقیقتوں کو پیش نظر رکھا جانا چاہئے جو ہمارے نئے معمول ہیں۔
بھارت کے ہمالیائی پہاڑی سلسلے میں، جہاں پانچ لاکھ افراد آباد ہیں ، ترقی کی ضرورت ہے ۔ ڈیموں کی مدد سے شفاف توانائی حاصل ہوتی ہے اور دیہات روشن ہوتے ہیں جب کہ سڑکیں سیاحوں کے ہمیشہ سے بڑھتے ہوئے ریلوں کی آمد کے لیے مفید ثابت ہوتی ہیں، مقامی معیشتوں کو فروغ دیتی ہیں، اور ذرائع معاش پیدا کرتی ہیں۔
ہائی وے کی تعمیر اسٹریٹجک پراجیکٹس کے لیے بھی اہم ہے۔ بھارت سڑکوں کی تعمیر کی رفتار اس لیے تیز کر رہا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں اور فوجی سازو سامان کو چین سے ملحق کشیدہ سرحد تک پہنچا سکے جہاں ہزاروں فوجی چار سال سے بدستور تعینات ہیں ۔
لیکن مقامی کمیونٹیز کو ڈر ہے کہ انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں اضافہ پہاڑوں کو غیر مستحکم کر رہا ہے۔ قصبے جوشی میتھ میں جہاں بنے ہو ئے گھروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں ، کچھ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ بے تحاشا تعمیر زمین کے دھنسنے کا سبب بنی ہے۔
جنوری میں جوشی میتھ قصبے کے سینکڑوں لوگوں کا ان مکانات سے انخلا کیا گیا جن میں بڑی بڑی دراڑیں پڑ گئی تھیں اور زمین دھنسنا شروع ہو گئی تھی ۔ مون سون کے موسم میں موسلا دھار بارشوں کے نتیجے میں بہت سے قصبوں اور دیہاتوں میں مٹی کے تودے گرے اور سیلابی ریلے سڑکوں اور عمارتوں کو بہا کر لے گئے۔
گزشتہ ماہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کا ایک نمایاں پراجیکٹ توجہ کا مرکز بنا تھا ۔ 900 کلومیٹر کا ہر موسم کے لیے ساز گار سڑکوں کا یہ نیٹ ورک ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہندو یاتریوں کے چار مقامات کے رابطے کو بہتر بنانے کے لیے تعمیر کیا جا رہا ہے ۔
اس پراجیکٹ پر کام کرنے والے 41 کارکن سڑک کی ایک سرنگ میں پھنس گئے تھے جنہیں بعد میں امدادی کارکنوں نے وہاں سے نکالا۔
اکتوبر میں سکم میں ایک گلیشئیر چھیل میں سیلاب آگیا اور بہت سے دیہاتوں کے زیر آب آنے کا باعث بنا۔
جوشی مٹھ کے ایک رہائشی وکیش سکری نے، جو قریب ہی ایک ہوٹل چلاتے ہیں کہا کہ اگرچہ اسکول اور سڑکیں ضروری ہیں لیکن مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔
پہاڑوں کے ساتھ انفرا اسٹرکچرز کی بہت زیادہ تعمیر ان کی مضبوطی کو نقصان پہنچائں گی، ان میں شگاف پڑ جائیں گے یا پہاڑی مقامات کو نقصان پہنچے گا۔
ماحولیات کے کچھ گروپس نے اونچے پہاڑوں سے گزرتی ہوئی ایک دو رویہ سڑک کے قابل عمل ہونے پر سوال اٹھائے ہیں ۔
نئی دہلی کے سنٹر فار سائنس اینڈ اینوائرنمینٹ کے سسٹین ایبل بلڈنگز اینڈ ہیبیٹاٹ پروگرام کے ڈائریکٹر رنجیش سرین کے مطابق یہ سڑک کچھ ایسے مقامات سے گزرے گی جس کے بارے میں ہماری معلومات محدود ہیں۔
پہاڑوں کے صرف دو سے تین کلومیٹر کے علاقوں میں بھی ماحول میں بہت زیادہ فرق ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کچھ علاقوں پر تفصیلی ریسرچ نہیں کی گئی ہے اس لیے ہم کس طرح تعمیر ات کے اثرات کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟
پرکاش کہتے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی ہمیں بہت تیزی سے متاثر کر رہی ہے ۔ ہمارے پاس صرف 10 سے پندرہ سال کی مہلت ہے ۔ اگر ہم نے مل کر اقدام نہ کیے تو ہمار ا مستقبل انتہائی تاریک ہو گا۔
کوپ 28
ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کو درپیش آب و ہوا کا بحران اس ماہ کے شروع میں دوبئی میں آب و ہوا کی 28 ویں سر براہ کانفرنس میں بھی توجہ کا مرکز بنا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینتونیو گوتریس نے ، جنہوں نے گزشتہ ماہ نیپال کا دورہ کیا تھا ، کہا، کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ گلیشیئرز کس تیزی سے پگھل رہے ہیں، اور مقامی کمیونٹیز کی جانب سے اس بارے میں سن کر سخت تشویش ہورہی ہے کہ اس کا ان کی زندگیوں پر کتنا خوفناک اثر مرتب ہو رہا ہے۔۔
بھارت میں لیلا دیوی کے خاندان جیسے وہ لوگ جنہوں نےپہاڑوں میں بنے اپنے گھروں کو گرتے دیکھا تھا، پریشان ہیں ۔
خان یارا گاؤں کی سوارنا دیوی کہتی ہیں کہ لوگوں کو فکر ہے کہ کہیں بارشیں اور سیلابی ریلے ان کے گھروں کو دوبارہ نہ گرا دیں ۔
سوارنا دیوی کے سسر رامل سنگھ نے اپنے ارد گرد پہاڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ، "یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم رہنا چاہتے ہیں کیوں کہ یہ پہاڑیاں کئی نسلوں سے ہمار اگھر ہیں ۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں