بی بی سی اردو
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے کہا ہے کہ اگر ہم نے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل نہیں کیا تو ہمیں اسی حشر کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا آج غزہ اور فلسطینیوں کو سامنا ہے۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق فاروق عبداللہ نے انڈیا کے سابق وزیر اعظم اور بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے ہر بار یہ ہی کہا ہے۔ واجپائی جی نے کہا تھا کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں لیکن پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے۔ ہم پڑوسیوں کے ساتھ مل کر رہیں گے تو دونوں ترقی کریں گے۔ اگر ہم دشمنی نبھاتے رہے تو تیزی سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مودی جی نے بھی حال ہی میں یہ کہا تھا کہ جنگ کوئی حل نہیں ہے، مسائل کو بات چیت سے حل کرنا ہوگا، وہ بات چیت کہاں ہے؟ آج عمران خان کو چھوڑیں، اب نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم بننے والے ہیں۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ بات چیت کریں گے، کیا وجہ ہے کہ ہم بات کرنے کو تیار نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم نے اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل نہیں کیا تو میں معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں بھی غزہ اور فلسطینیوں کی طرح (صورت حال کا) سامنا کرنا پڑے گا، جن پر آج اسرائیل بمباری کر رہا ہے۔‘
ان کا یہ بیان جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع میں پوچھ گچھ کے لیے فوجی کیمپ میں بلائے گئے تین افراد کی موت کے بعد آیا ہے۔
فوج نے کل آٹھ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا جن میں سے پانچ ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں میں کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
یہ پوچھ گچھ گذشتہ ہفتے 21 دسمبر کو پونچھ ضلع میں فوج کی دو گاڑیوں پر گھات لگا کر حملے کے سلسلے میں کی جا رہی ہے جس میں چار فوجی ہلاک اور دو افراد زخمی ہوئے تھے۔
فوج نے اس معاملے میں ایک بیان جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ معاملے کی تحقیقات جاری ہے۔
دریں اثنا سوشل میڈیا ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر فاروق عبداللہ ٹرینڈ کر رہے ہیں اور اس سلسلے سے ان کے مختلف کلپس شیئر کیے جا رہے ہیں جس میں وہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کی اہمیت پر زور دیتے نظر آ رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کی جاری کردہ ایک کلپ میں فاروق عبداللہ نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق شق 370 کے خاتمے کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں عسکریت پسندی ختم نہیں ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ عسکریت پسندی کا معاملہ ایسے نہیں ختم ہونے والا۔ جو آسمان سے (دہلی کی اعلیٰ قیادت کی جانب اشارہ) بول رہے ہیں کہ عسکریت پسندی ختم ہو گئی، یہ ہو گیا وہ ہو گیا، ان سے میں بار بار یہ کہتا ہوں کہ یہ ختم نہیں ہوئی ہے۔ جب تک وہ ماحول نہیں بنایا جائے جس میں بات چیت کا راستہ نکالا جائے اور اس راستے میں آج وہ ملک ( پاکستان) بات چیت کے لیے تیار ہے۔ ان سے بات چیت کر کے کوئی راستہ نکالنا ہوگا جس سے یہ بند ہو جائے۔‘
میڈیا نیوز ہاؤس این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کشمیر میں سینیئر بی جے پی لیڈر حنا شفیع بھٹ نے فاروق عبداللہ کے بیان کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’جموں و کشمیر کے ایک سینیئر لیڈر، جو خود جموں کشمیر سے ہیں، اب بھی پاکستان کے ساتھ بات چیت کی بات کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’فاروق صاحب کو اب سیکھ جانا چاہیے کہ یہ حکومت پاکستان کے سامنے جھکنے والی نہیں ہے۔ ہم نے کوشش کی، انھوں نے بار بار ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ کشمیر کے غزہ اور فلسطین ہونے کی بات فاروق عبداللہ کی منفی سوچ کی عکاس ہے۔‘
اس سے قبل جاری ہونے والی ایک دوسری ویڈیو میں فاروق عبداللہ نے دہلی کی مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردی ہے اور رہے گی، جب تک کہ اس کی جڑ کو نہ سمجھا جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں نے آپ سے پہلے بھی کہا ہے کہ دہشت گردی ابھی بھی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ 370 ختم ہو جائے گا تو دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔ وہ دہشت گردی کے لیے 370 کو ذمہ دار مانتے تھے۔ مجھے افسوس ہے کہ آج وہ بالکل چپ ہیں۔ اور سیاحت پر بولتے رہتے ہیں کہ سیاحت اتنی ہو گئی اور سیاحت اتنی ہو گئی۔ سیاحت ہی سب کچھ نہیں ہے۔ دہشت گردی ہے، دہشت گردی رہے گی، جب تکہ اس کی جڑ کو ہم لوگ سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔‘
فاروق عبداللہ کے بیان پر انھیں بی جے پی کے حامیوں کی جانب سے ٹرول کا سامنا ہے۔ سیفرن ڈیلہائٹ نامی ایک صارف نے فارق عبداللہ کے بیٹے اور سابق وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’اگر آپ کے والد فاروق عبداللہ یہ سجھتے ہیں کہ پاکستان سے نہ بات کرنے سے جموں کشمیر ’غزہ‘ بن جائے گا تو آپ سب کے لیے اچھا ہے کہ آپ پاکستان چلے جاؤ اور وہاں محفوظ رہو۔‘
انڈیا میں دفاعی امور کے ماہر سوشانت سرین نے فاروق عبداللہ کے بیان پر کہا کہ ’اس لیے سیاست میں بھی ریٹائرمنٹ کی عمر ہونی چاہیے۔ فاروق عبداللہ پاکستان کی چاہ کے بارے میں جو کہہ رہے ہیں اس کے بارے میں نہ صرف بے خبر اور ناواقف ہیں بلکہ وہ پاکستان کے ساتھ حمایت دکھا کر ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں تاکہ وہ دونوں طرف سے کھیل سکیں اور فائدہ اٹھا سکیں۔‘
بی جے پی حامی ایک سوشل میڈیا صارف نے ان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’ فاروق عبداللہ کی حالیہ غزہ کی صورتحال والی دھمکی کے بعد کیا کوئی یہ شک بچتا ہے کہ کشمیر میں ہونے والے تازہ حملے ان کا کام نہیں ہیں؟‘
اسی طرح بہت سے انڈین سوشل میڈیا صارفین فاروق عبداللہ کے حوالے سے کہے رہے ہیں کہ اگر انھیں کشمیر کے غزہ بننے کا اتنا ہی خوف ہے تو وہ پاکستان چلے جائیں۔
جبکہ پاکستان سے ایک صارف نے اس بات پر تنقید کی ہے کہ فاروق عبداللہ کو یہ کیسے معلوم کہ عمران خان کے بجائے نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم بنیں گے۔
جبکہ کئی صارفین نے لکھا ہے جب جب فاروق عبداللہ اپنا منھ کھولتے ہیں کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے۔
بہر حال کشمیر میں ہونے والے تازہ واقعات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہاں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18