کاغذات نامزدگی جمع کروانے الیکشن کمیشن کے دفتر بڑی امیدیں لے کر پہنچی لیکن وہاں موجود عملے نے کہا کہ آپ کے لیے تو خانہ ہی نہیں۔ ہم آپ کا نام کہاں لکھیں؟‘
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور سے تعلق رکھنے والی ٹرانس جینڈر ثوبیہ خان کو یہ سن کر بہت دُکھ ہوا مگر ان باتوں کے باوجود انھوں نے زندگی میں پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بطور آزاد امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
تعلیم کے اعتبار سے بی اے پاس ثوبیہ صحافی بھی ہیں اور آئندہ الیکشنز کے لیے کافی بااعتماد ہیں۔
ثوبیہ کے مطابق الیکشن کمیشن کے عملے کی جانب سے اس جواب کے بعد بھی انھوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنے کاغذات جمع کروا دیے اور ساتھ ہی عدالت میں درخواست بھی دائر کر دی۔
پاکستان میں انتخابات 2024 کی تاریخ کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی سیاسی ہلچل اور گہما گہمی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایک جانب جہاں ہر جماعت اپنے منشور اور انتخابی دعوؤں کے چرچے کرنے میں مصروف ہے وہیں خواجہ سرا امیدواروں کو انتخابی عمل میں شمولیت کے لیے کاغذات نامزدگی کے پہلے مرحلے سے انتخابی مہم تک ہر جگہ امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
گذشتہ 10 سال سے ٹرانس کمیونٹی کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ثوبیہ جب اپنے حلقے کے ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچیں تو وہ سمجھ رہی تھیں کہ کاغذات نامزدگی پر بھی ان کے شناختی کارڈ کی طرح ٹرانس کمیونٹی کا مخصوص خانہ ہو گا تاہم ان کا اندازہ غلط تھا۔
’یہ صورتحال دیکھ کر میں نے مرد اور خاتون دونوں خانوں میں سے کسی پر ٹک ہی نہیں کیا بلکہ شناختی کارڈ کے مطابق اپنا نام بلال خان لکھ کر آگے ہاتھ سے ٹرانس جینڈر خود لکھا اور الیکشن کمیشن کے عملے سے کہا کہ مجھے مرد یا عورت نہیں بلکہ انسان کی نظر سے دیکھیں۔‘
’صنفی شناخت پر کیا ہمارے کاغذات مسترد کیے جائیں گے؟‘
اسلام آباد کی رہائشی نایاب علی بھی ایک ٹرانس جینڈر ہیں اورایک بار پھر انھوں نے انتخابات میں حصہ لینے کا عزم کیا اور قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 46 اور این اے 47 سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔
اسلام آباد کے دو حلقوں سے جنرل نشستوں پر حصہ لینے والی نایاب علی ایک ٹرانس جینڈر ہونے کے ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ انھوں نے اس سے قبل 2018 کے انتخابات اور مقامی حکومتوں کے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے 25 دسمبر کو الیکشن میں حصہ لینے کے خواہش مند افراد کی مجموعی تعداد کے اعداد و شمار جاری کیے تو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے 28626 مرد اور خواتین امیدواروں کی تفصیلات تو بتائی گئیں لیکن اس میں کہیں ٹرانس جینڈرز امیدواروں کا ذکرتک نہ تھا۔
نایاب علی نے یہی معاملہ اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھا کہ الیکشن کمیشن کے (اس اعلامیے کے ) مطابق انتخابات میں حصہ لینے کے لیے صرف مرد اور خواتین امیدواروں نے کاغذات جمع کروائے تاہم قانونی طور پر تسلیم شدہ تیسری جنس ’X‘ کے طور پر ہم نے بھی نامزدگی فارم جمع کروائے ہیں۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’اس بارے میں الجھن میں ہے کہ ہماری صنفی شناخت کی بنیاد پر کیا ہمارے کاغذات مسترد کیے جا سکتے ہیں۔ قانون خواجہ سراؤں کو تسلیم کرتا ہے اس معاملے میں وضاحت کی ضرورت ہے۔‘
نایاب علی کے نزدیک ٹرانس جینڈرز کے لیے انتخابی مہم کے دوران لوگوں کا مائنڈ سیٹ سب سے بڑا چیلنج ہے لیکن اس کے باوجود وہ مایوس نہیں۔
’پچھلی بار بھی پانچ خواجہ سراؤں نے مقابلے میں حصہ لیا تھا۔ میرے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی۔۔۔ بہت سے لوگوں نے ہمیں نظر انداز کیا کیونکہ ان کے نظر میں ٹرانس جینڈر بھیک مانگنے آئے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے مارکیٹ ایریا میں گاڑیوں کے شیشے بند کر دیے، کسی نے گندی زبان استعمال کی اور کسی نے تو ہمیں مہم کے دوران 50 روپے کا نوٹ پکڑا دیا۔‘
انھیں امید ہے کہ ’اسلام آباد کی شرح تعلیم اچھی ہے تو ہمیں اچھا ردعمل ملے گا۔‘
نایاب علی کے مطابق انھیں کاغذات نامزدگی مل نہیں رہے تھے تاہم سوشل میڈیا پر معاملہ اٹھایا تو ضلعی ریٹرنگ افسر نے اس پر معذرت بھی کی۔ ’ان کاغذات نامزدگی کے لیے فیس بھی اتنی زیادہ ہے کہ ہر شخص اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔ کاغذات نامزدگی جینڈر نیوٹول ہیں یعنی ان پر کہیں نہیں لکھا کہ آپ مرد ہیں یا عورت ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میں خواجہ سراؤں کی ہی نہیں بلکہ حلقے کے تمام افرد کی نمائندگی کروں گی۔ اسلام آباد کی بات کریں تو یہاں سے خاتون کی کوئی مخصوص سیٹ نہیں۔ کچی آبادیوں کے لوگ یہاں کسمپرسی میں رہتے ہیں تو ان کو تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ سمیت زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی پر کام کروں گی جبکہ ٹرانس جینڈرز کے قانون کو مضبوط کرنے کے لیے بل پیش کروں گی۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18