ٹیکنالوجی کی دنیا میں 2023 کو شاید مصنوعی ذہانت کے سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
کمپیوٹر کوڈ سے لے کر فن پاروں اور مضامین تک جنریٹیو اے آئی سسٹم بڑی تیزی سے مواد تیار کر سکتے ہیں۔ یہ مثالی نہیں ہوتا مگر کئی صنعتوں اور شعبوں میں یہ کارآمد ٹول بن گیا ہے۔
مائیکروسافٹ کے حمایت یافتہ چیٹ جی پی ٹی نے اس شعبے کی سربراہی کی۔ اسے 2022 کے اواخر میں لانچ کیا گیا تھا مگر تب سے اس کے کئی حریف میدان میں اتر چکے ہیں۔
رواں ماہ ایلفابیٹ (گوگل کی مالک کمپنی) نے جیمنائی متعارف کرایا جو ایسی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی ہے جسے گوگل کے پروڈکٹس میں استعمال کیا جاسکے گا۔ گوگل کے سرچ انجن کے علاوہ مخصوص چیٹ بوٹ میں بھی اس کا استعمال ہوسکے گا۔
گوگل کا دعویٰ ہے کہ جیمنائی چیٹ جی پی ٹی کے موجودہ ورژن سے بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے مگر چیٹ جی پی ٹی کی مالک کمپنی اوپن اے آئی کے مطابق اس کا مزید طاقتور سافٹ ویئر آئندہ سال آ سکتا ہے۔
نومبر میں ایک کانفرنس کے دوران اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹمین نے کہا ’ہم جو آپ کے لیے بنانے جا رہے ہیں اس کے مقابلے آپ کو موجودہ ورژن بہت پرانا لگے گا۔‘
دریں اثنا سرمایہ کار اس صنعت پر پیسوں کی بارش کر رہے ہیں اور سبھی کو امید ہے کہ وہ اگلے بڑے کھلاڑی کے ساتھ ہوں گے۔
پچ بُک کے مطابق عالمی سطح پر وینچر کیپیٹل کمپنیوں نے مصنوعی ذہانت کے سٹارٹ اپس میں 21 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ جاری کی ہے۔ یہ اعداد و شمار صرف ستمبر تک کے ہیں۔ اس کا موازنہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس صنعت میں سنہ 2022 کے دوران صرف 5.1 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔
مگر بعض لوگ متنبہ کرتے ہیں کہ ہمیں اس پر بہت زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ سی سی ایس انسائٹ کے چیف تجزیہ کار بین ووڈ نے کہا کہ جنریٹیو اے آئی 2024 کے دوران ’ٹھنڈے پانی سے نہانہ‘ ثابت ہوگا۔
’اس رجحان نے کئی رکاوٹوں کو نظر انداز کیا ہے جو ہمارے مطابق قلیل مدت میں اس کی رفتار کم کر دیں گی۔‘
ان کی رائے میں فی الحال جنریٹیو اے آئی سسٹم بنانا اور چلانا بہت مہنگا کام ہے۔ اس کے لیے کمپیوٹنگ پاور اور مہنگی کمپیوٹر چپس کی ضرورت ہے جن کی سپلائی ابھی کم ہے۔
ان اخراجات کو کم کرنے کے لیے ان کے خیال میں کچھ اے آئی سٹارٹ اپ ہائبرڈ سسٹم بنائیں گے یعنی بعض مصنوعی ذہانت کی چیزوں میں مقامی سطح پر، لیپ ٹاپ یا فون، کے ذریعے پروسیسنگ ہوگی۔
ووڈ کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت سے متعلق قانون سازی اور لیگل محاذ کھڑے ہو رہے ہیں جو اس کے لیے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ ’کمپنیوں کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں انھوں نے مصنوعی ذہانت کی سروس میں بہت زیادہ پیسوں کی سرمایہ کاری کی ہو مگر پھر قوانین کی وجہ سے انھیں کچھ سروسز معطل کرنی پڑیں تاکہ قانون پر عملدرآمد کر سکیں۔‘
الیکٹرک گاڑیوں پر سیل
گاڑیوں پر تحقیق کے ایک ادارے کے مطابق 2024 کی پہلی سہ ماہی کے دوران برطانیہ کی سڑکوں پر 10 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں چلیں گی۔ اس طرح جرمنی کے بعد برطانیہ اس تاریخی لمحے کو پہنچنے والا دوسرا ملک بن جائے گا۔
اس کے باوجود 2024 الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے لیے ایک اور مشکل سال ہوسکتا ہے۔
2023 کے اواخر میں فورڈ، جے ایم اور ٹیسلا نے الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار بڑھانے کے منصوبے روک دیے تھے۔
اکتوبر میں مرسیڈیز بینز نے اس صنعت کو ’ظالم‘ کہا تھا اور اس کی وجہ قیمتوں کی جنگ اور سپلائی چین کے مسائل کو قرار دیا تھا۔
آٹو مارکیٹ کے تجزیہ کار متھیاز شمڈ کی پیشگوئی ہے کہ 2024 کے دوران یورپ میں الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت میں رکاوٹ برقرار رہے گی۔ جنوری سے فروخت ہونے والی گاڑیوں کا پانچواں حصہ الیکٹرک ہونا لازم ہوگا۔ 2030 تک الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کے لیے 80 فیصد کا ہدف طے ہوا تھا۔
یہ ان لوگوں کے لیے اچھی خبریں ہوسکتی ہیں جو الیکٹرک کار خریدنے کے خواہشمند ہیں۔ ’مارکیٹ خریداروں کے لیے سازگار ہوگی کیونکہ کمپنیاں اپنے ہدف پورے کرنا چاہیں گی۔‘
’قیمتوں میں کمی چھائے رہے گی۔ اس کے لیے فنانسنگ کی ڈیلز دی جائیں گی اور اضافی اخراجات کے بغیر ہلکے ماڈل متعارف کرائے جائیں گے۔ کمپنیوں کی کوشش ہوگی کہ قیمتوں میں کمی عیاں نہ ہو۔‘
فیکٹری ملازم روبوٹ
امکان ہے کہ انسانوں کی طرح کام کرنے والے روبوٹ اگلے سال سے مؤثر ثابت ہونے لگیں گے اور بہتر انداز میں ان سے کام لیا جاسکے گا۔
ٹیسلا کے انجینیئر ’اوپٹیمس‘ پر کام کر رہے ہیں۔ یہ ایسا روبوٹ ہے جو فیکٹری کے بنیادی کام کرنے کے قابل ہو گا۔
دسمبر میں جاری کی گئی ویڈیو میں اوپٹیمس کا جدید ورژن دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ سابقہ مشین سے ہلکا ہے۔ اس کے پاس جدید ہاتھ ہیں جو نئی موٹروں سے چلتے ہیں۔
جولائی میں ایلون مسک نے کہا تھا کہ اوپٹیمس 2024 سے باقاعدہ طور پر ٹیسلا فیکٹری میں کام کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم پہلے اس کی آزمائش اپنی فیکٹریوں میں کریں گے جس میں یہ اپنی قابلیت ثابت کر سکے گا۔ مجھے امید ہے اور اعتماد ہے کہ اگلے سال سے یہ فیکٹریوں میں مؤثر ثابت ہونے لگے گا۔‘
انسانوں جیسی قابلیت رکھنے والے روبوٹ کی صنعت میں ٹیسلا کے کئی حریف ہیں۔ دیگر کمپنیاں بھی ایسے روبوٹ بنا رہی ہیں جو دفاتر یا فیکٹریوں میں کام سیکھ کر انھیں کر سکیں گے۔
ایمیزون اپنے ویئر ہاؤس میں ایک ایسے ہی روبوٹ ’ڈیجٹ‘ کی آزمائش کر رہا ہے۔ یہ انسانوں کی طرح چل پھر سکتا ہے، چیزیں پکڑ سکتا ہے اور انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھ سکتا ہے۔
اسے اجیلیٹی روبوٹکس نے بنایا ہے اور اسے امید ہے کہ اگلے سال دوسرے صارفین کو بھی ڈیجٹ روبوٹ مل سکیں گے۔
کینیڈا سینچوئیری اے آئی نے اپنے روبوٹ ’فینکس‘ کو بیگ پیکجنگ کی تربیت دی ہے۔ 2024 میں ان کا منصوبہ ہے کہ فینکس کو مزید کام سکھائے جائیں۔
وزن کم کرنے کی گولی
دوا ساز کمپنیوں کی دنیا میں ایک علاج بہت تیزی سے بِک رہا ہے۔ یہ رفتار اتنی تیز ہے کہ ایک کمپنی طلب پوری کرنے میں بہت پیچھے ہے۔
وزن کم کرنے کی دوا سیمگلوٹڈ کو ’ویگوی‘ کے نام سے بیچا جاتا ہے۔ اس نے بڑی کامیابی سمیٹی ہے جس سے اس کی کمپنی نووو نورڈسک یورپ کی سب سے قیمتی کمپنی بن چکی ہے۔
ڈینش کمپنی نے طلب پوری کرنے اور پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے اربوں یوروز کی سرمایہ کاری کی ہے۔ فی الحال ویگوی ہفتہ وار انجیکشن کے ذریعے مریض کو دی جاتی ہے مگر اس کی گولیاں تقریباً تیار ہوچکی ہیں۔ نوو نورڈسک نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا کہ یہ مارکیٹ میں کب متعارف کرائی جائے گی۔
اس کمپنی کو اگلے سال مقابلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایلی لیلی نامی کمپنی کی دوا ’مونجارو‘ کو حال ہی میں امریکہ اور برطانیہ میں وزن میں کمی کے علاج کے طور پر منظوری ملی ہے۔
امکان ہے کہ جلد یورپی یونین میں بھی اسے منظوری مل جائے گی۔
فائزر کو بھی جلد وزن کم کرنے کی گولی کی منظوری ملنے کی امید ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں