عبدالمظہر طلحہ پر یوپی کی اے ٹی ایس نے اتنی مہربانی تو کی کہ اس کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے ’ثابت‘ نہیں کیا ، لیکن دارالعلوم دیوبند کے اس طالبِ علم نے جو ’غلطی‘ کی تھی اس کے نتیجے میں اسے جیل جانا پڑگیا ۔ بات سابق ’ٹوئٹر‘ یعنی آج کے ’ایکس‘ پر عبدالمظہر طلحہ کے ایک ’ ری کمینٹ‘ سے بگڑی جس میں اس نے لکھا تھا کہ ’ بہت جلد ان شااللہ دوسرا پلوامہ بھی ہوگا‘۔ سوشل میڈیا پر بابری مسجد اور گیان واپی کے تعلق سے بحث چل رہی تھی کہ ’’بابری مسجد گئی گیان واپی بھی جائے گی‘‘ اور اس بحث پر مذکورہ طالب علم نے جوش میں آکر اور جذبات میں بہہ کر اوپر کا ’ری کمینٹ‘ کردیا۔ظاہر ہے کہ طالب علم کا یہ ردّعمل انتہائی تشویش ناک تھا اور اس کا نتیجہ گرفتاری ہی ہونا تھا، اور ایسا ہی ہوا ۔ سوال یہ ہے کہ کیوں کوئی نوجوان جوش میں آکر اور جذبات میں بہہ کر اس طرح کا ردعمل ظاہر کرتا ہے ، جو اسے تفتیشی ایجنسیوں کے نشانے پر بھی لے آتی ہیں ، اور جن اداروں سے وہ وابستہ ہوتا ہے ، ان اداروں کو بھی ہدف بنادیتی ہیں! یہ سوال نہیں ہے ، ایک طرح کا اظہارِ استعجاب ہے ۔ جب بات بابری مسجد اور گیان واپی کی ہورہی تھی تب کیا ضرورت تھی پلوامہ کو درمیان میں لانے کی ؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ طلباء اور نوجوانوں کو سوشل میڈیا کی اِن بحثوں میں حصہ لینے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا اب بھگوا عناصر کے لیے ایک ایسا ہتھیار بن گیا ہے جس کے ذریعے نوجوان مسلم بچوں کو ’پھنسایا‘ جاتا ہے ، اور پھر وہ بچے تفتیشی ایجنسیوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ عبدالمظہر طلحہ کے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا ہے ، ’ ایکس‘ پر یرقانی ٹولہ بڑھ چڑھ کر زہرافشانی کررہا تھا ، مقصد واضح تھا کہ کوئی پھنسے اور یہ نوجوان پھنس گیا ۔ اے ٹی ایس نے اسے گرفتار کرلیا ، انگلیاں دارالعلوم دیوبند پر بھی اٹھنے لگیں ، جو پہلے ہی سے فرقہ پرست عناصر کے نشانے پر ہے ، یہ نوجوان وہیں کا طالب علم ہے۔پھر سوشل میڈیا پر اور میڈیا میں اس بچے کا اور دارالعلوم دیوبند کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑا جانے لگا ۔ دارالعلوم دیوبند پر تو ہاتھ ڈالنا مشکل ہے ، کیونکہ اس کا کردار ہمیشہ قومی رہا ہے ، اس نے باقاعدہ ملک کی آزادی کی تحریک میں حصہ لیا اور قربانیاں دی ہیں ، لیکن بچوں کے لیے اپنا دفاع کرنا مشکل ہوتا ہے ، اور یہ مشکل اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ چاہے دارالعلوم دیوبند ہو یا کوئی اور ادارہ وہ ایسے کسی بچے کی ، جسے گرفتار کیا گیا ہو کوئی مدد نہیں کرتا ۔ اور یہ ٹھیک بھی ہے ۔ اداروں کے اپنے اصول وضوابط ہوتے ہیں ، جنہیں بچے توڑتے رہتے ہیں ، مثلاً دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ نے اسمارٹ فون پر پابندی لگارکھی ہے ، کوئی طالب علم ا س کا استعمال نہیں کرسکتا ۔ لیکن بچے چوری چھپے موبائل رکھتے ہیں ، اور سوشل میڈیا پر نامناسب پوسٹ یا کمینٹ کرتے ہیں ۔ ہر ادارے میں چاہئے کہ بچوںپر سختی کی جائے تاکہ موبائل کا غلط استعمال ممکن نہ ہوسکے ۔ نوجوانوں اور طلباء کو بھی چاہئے کہ وہ سوشل میڈیا کے مضر اثرات کو سمجھیں ، یہ سمجھیں کہ اس کے ذریعے ’ پھنسایا‘ جانا بہت آسان ہے ، اور اگر موبائل استعمال بھی کریں تو نہ تو نامناسب پوسٹ اَپ لوڈ کریں اور نہ ہی غیر ضروری کمینٹ کریں ۔ وہ تو جیل چلے جائیں گے ، اداروں کو اور والدین کو جواب دیتے ہوئے ناکوں چنے چبانے پڑیں گے ۔ عبدالمظہر طلحہ کا معاملہ تمام نوجوانوں اور طلباء کے لیے ایک سبق ہے۔ اس معاملہ میں اے ٹی ایس کا کردار قابل تعریف رہا ہے کہ اس نے عبدالمظہر کو کسی دہشت گرد تنظیم سے نہیں جوڑا ہے ، اب اسے چاہئے کہ اس طالب علم کی نادانی کا احساس کرتے ہوئے اس کی رہائی کی راہیں آسان کردے تاکہ اس کی زندگی برباد ہونے سے بچ سکے ۔
تحریر: شکیل رشید ( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں