وہ دن جس کے بارے میں معمون نے سوچا تھا کہ وہ اپنی شادی کا جشن منا رہے ہوں گے لیکن اس دن وہ اپنے 16 رشتہ داروں کی میتیں دفن کر رہے تھے۔
خوبصورت ساڑھیوں اور سوٹوں میں ملبوس معمون کے رشتہ دار شادی کی تقریب میں شامل ہونے کے لیے ایک کشتی پر سوار ہوئے اور اسی وقت ایک طوفان آ گیا۔ تیز بارش کی وجہ سے کشتی کو کنارے لگایا گیا اور معمون کے رشتہ دار بھیگنے سے بچنے کے لیے دریا کے کنارے ٹین کی چادر کے بنے شیڈ کے نیچے جمع ہو گئے، اسی وقت ان پر آسمانی بجلی گری۔
بنگہ دیش میں موسم شدید رہتا ہے اور ملک طوفانوں کا شکار رہتا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال یہاں بجلی گرنے کے حادثوں کی وجہ سے 300 افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں امریکہ میں ہر سال 20 لوگوں کی اموات ہوتی ہیں جبکہ امریکہ کی آبادی بنگہ دیش سے تقریباً دگنی ہے۔
یہ بنگلہ دیش اور معمون جیسے لوگوں کے لیے ایک بڑی مشکل ہے۔ معمون پہلی دفعہ اگست 2021 میں ہونے والے اس واقعے پر بات کرنے کے لیے تیار ہوئے ہیں۔
21 سال کے معمون ملک کے شمال مغرب حصے میں شبگنج کے علاقے میں اپنے سسرال میں تیار ہو رہے تھے جب انھوں نے بجلی کی گھن گرج سنی اور اس کے چند منٹ بعد کی دہلا دینے والی خبر ان تک پہنچی۔
وہ اپنے رشتہ داروں کی جانب بھاگے اور جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو وہاں افراتفری کا عالم تھا اور کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
معمون یاد کرتے ہیں کہ ’کچھ لوگوں نے لاشوں کو سینے سے لگایا ہوا تھا، زخمی لوگ درد سے چیخ رہے تھے۔۔۔ بچے چیخ رہے تھے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ میں یہ بھی فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ پہلے کس کی جانب بڑھوں۔‘
اس حادثے میں معمون کے والد، ان کے دادا دادی، کزنز اور والدین کے بہن بھائی ہلاک ہوئے۔ ان کی والدہ ان کے سات کشتی پر سوار نہیں تھیں اس لیے وہ بچ گئیں۔
معمون بتاتے ہیں ’جب مجھے اپنے والد کی لاش ملی تو میں رو پڑا۔ میں اتنے صدمے میں تھا کہ میں بیمار ہو گیا۔‘
بعد میں اسی شام ہی ان کے جنازے اور تدفین ہوئی۔ جو کھانا شادی کے مہمانوں کو کھلایا جانا تھا وہ غریبوں میں بانٹ دیا گیا۔
معمون کی شادی بعد میں ہو گئی لیکن وہ اپنی شادی کی سالگرہ نہیں مناتے کیوں کہ انھیں تکلیف دہ یادیں یاد آتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’اس حادثے کے بعد اب وہ بارش اور بجلی سے بہت خوفزدہ ہیں۔‘
1990 کے دہائی میں ہر سال چند درجن لوگ بجلی گرنے سے مرتے تھے لیکن یہ تعداد اب بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
ناسا، اقوام متحدہ اور بنگلہ دیشی حکومت نے ایسی اموات میں اضافے کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے طوفان میں اضافہ بتایا ہے۔
بنگلہ دیش کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل محمد مجنور رحمٰن نے بی بی سی کو بتایا ’گلوبل وارمنگ، ماحولیاتی تبدیلیاں، رہن سہن کے رجحان آسمانی بجلی گرنے سے ہلاکتوں میں اضافے کے تمام عوامل ہیں۔‘
یہ حادثات اتنے سنگین ہو چکے ہیں کہ بنگلہ دیش نے بجلی کے گرنے کو سیلاب، طوفانوں، زلزلوں اور قحط کے ساتھ قدرتی آفات کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔
بجلی گرنے کے زیادہ تر شکار کسان ہوتے ہیں کیونکہ وہ مون سون کے مہینوں میں کھلے کھیتوں میں کام کر رہے ہوتے ہیں جہاں وہ اس قسم کے حادثات کا آسانی سے شکار بن جاتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے ستکھیرا کے علاقے میں ایک باڑ کے اوپر فٹبال ٹیم کی شرٹ لٹکی ہوئی ہے جو ایک شخص کی یادگار ہے جو ایسے ہی ایک حادثے میں مارا گیا۔
کچھ دن قبل ہی یہ شرٹ عبدللہ نے پہنی ہوئی تھی جب وہ چاول کے کھیل میں کام کرنے گئے تھے۔
اب اس کلڑی کی باڑ پر لٹکی ہوئی بارسیلونا فٹ بال کلب کی یہ شرٹ جلی اور پھٹی ہوئی ہے، اس پر گرنے والی بجلی نے اپنے نشان چھوڑ دیے۔
تین دہائیوں تک عبداللہ سے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھی ریحانہ مجھے اپنے ساتھ کھیت میں لے کر گئیں تاکہ وہ مجھے اس دن کے بارے میں بتائیں جس دن ان کے شوہر مارے گئے۔
اس دن دھوپ نکلی ہوئی تھی جب عبداللہ اور کسانوں کا ایک گروہ چاول کی کاشت کے لیے اپنے کام پر گئے۔ دوپہر میں ایک شدید طوفان آیا اور پھر ان کے شوہر پر بجلی گری۔
ریحانہ کہتی ہیں ’کچھ کسان انھیں اٹھا کے سڑک کے کنارے ایک دکان پر لے کر آئے لیکن اس وقت تک ان کی وفات ہو چکی تھی۔‘
ریحانہ کے ایک کمرے والے گھر کے باہر وہ چاولوں کا تازہ ڈھیر اب بھی پڑا ہوا ہے جسے مرنے سے ایک دن پہلے ہی عبداللہ لے کر آئے تھے۔
جوڑے نے حال ہی میں ایک قرضہ لیا تھا تاکہ وہ اپنے چھوٹے سے گھر میں دوسرا کمرہ بنائیں۔
گھر کے اندر جوڑے کا 14 سال کا بیٹا مسعود کتاب پڑھ رہا ہے۔ اب جب کہ کوئی کمانے والا نہیں ہے ریحانہ فکرمند ہے کہ ان پر پوری زندگی کا قرضہ چڑھ جائے گا اور وہ کیسے اس بچے کی پڑھائی کے پیسے دیں گی۔
روتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’میں اتنی خوفزدہ ہو گئی ہوں کہ اب جب میں بادل دیکھتی ہوں تو میں کسی بھی حالت میں اپنے بیٹے کو باہر نہیں جانے دیتی۔‘
آسمانی بجلی کا گرنا دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مسئلہ ہے۔ پڑوسی ملک انڈیا میں بھی گذشتہ سالوں میں بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے لیکن حکومت کی جانب سے لیے گئے اقدامات کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے۔
بنگلہ دیش میں بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایسے اقدامات لیے جائیں جن سے ایسی ہلاکتوں میں کمی آئے۔
سماجی اور ماحولیاتی کارکنان کا کہنا ہے کہ دور دراز کے علاقوں اور بالخصوص ان علاقوں میں جہاں بہت سارے درخت کاٹے گئے ہیں شجرکاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انسانوں کے بجائے بجلی ان درختوں پر گرے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر بجلی سے بچانے والے شیڈ بنانے کے پروگرام کا آغاز کیا جائے تاکہ کسان ان میں پناہ لے سکیں اور ممکنہ طوفانوں کے بارے میں لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے وسیع تر ابتدائی انتباہی نظام بنائے جائیں۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جن جگہوں پر یہ واقعات زیادہ ہوتے ہیں وہاں موبائل فون کا استعمال کم ہوتا ہے اور سگنل بھی نہیں آتے۔
اس مسئلے کے بارے میں معلومات اور شعور کی کمی بھی ایک مسئلہ ہے۔ ملک میں بہت سارے لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ بجلی کا گرنا کتنا خطرناک ہوتا ہے۔ دنیا میں بہت کم لوگ یہ توقع کرتے ہیں کہ ان پر بجلی گرے گی۔
جس دن عبداللہ کی موت ہوئی تھی اس دن کسان ریپون حسین ان کے ساتھ تھے اس دن جب بجلی گرے تو انھوں نے پہلی دفعہ اسے اتنے قریب سے دیکھا تھا۔
وہ یاد کرتے ہیں ’ایک اونچی آواز آئی اور پھر میں نے بہت ساری چمکتی روشنی دیکھی۔ ایسا لگا جیسے آگ ہمارے اوپر گری گئی۔ مجھے بڑا بجلی کا جھٹکا لگا اور میں زمین پر گر گیا۔‘
’کچھ دیر بعد میں نے اپنی آنکھیں کھولی تو دیکھا کہ عبداللہ مر گیا ہے۔‘
ریپون حسین کو یقین نہیں آتا وہ کیسے بچ گئے۔ وہ کہتے ہیں اب وہ کھلے میدان میں کام کرنے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن ان کے غریب علاقے میں کھیتی باڑی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے وہ پیسے کما سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’جب بھی میں اپنے دوست عبدللہ کے بارے میں سوچتا ہوں میں روتا ہوں۔‘
’میں جب رات کو اپنی آنکھیں بند کرتا ہوں تو میں اپنے آپ پر قابو نہیں پا سکتا مجھے اس دن کا منظر نظر آنے شروع ہو جاتا ہے۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18