سالِ نو کا آغاز ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح سے ہو رہا ہے تو وہیں سال گزشتہ کو کانگریس کے آر ایس ایس کے گھر میں گھس کر دھونے سے بھی یاد رکھا جائے گا۔ جی ہاں، جس کانگریس کو تین ریاستوں میں شکست دے کر بی جے پی ابھی تک اپنے آپے میں نہیں آ سکی ہے، اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے گھر ناگپور میں 28 دسمبر کو کانگریس نے اس کو کچھ اس طرح دھویا ہے کہ اگر اس میں ذرا بھی غیرت ہوگی تو وہ دوبارہ ملک و قوم کی تعمیر میں کانگریس کے کردار پر سوال اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکے گی۔لیکن چونکہ سنگھ کے پورے پریوار میں اخلاقیات کا فقدان ہے اس لیے یہ توقع فضول ہے کہ کانگریس کے ذریعے دھوئے جانے پر اسے کچھ شرمندگی ہوئی ہوگی۔ یوں بھی جب آنکھوں پر جھوٹ و فریب کا چشمہ چڑھ جائے تو سچائی کے آئینے میں نظر آنے والے چہرے کے داغ بھی نظر آنے بند ہو جاتے ہیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ جب بی جے پی کی پوری حکومت دہلی سے ایودھیا منتقل ہو رہی تھی تو کانگریس اپنی 139 یومِ تاسیس کے پروگرام کے لیے ناگپور کا انتخاب کر رہی تھی۔ ناگپور کو آر ایس ایس کے گڑھ کے طور پر جانا جاتا ہے کہ وہیں پر اس کا صدر دفتر ہے لیکن اس بات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ اسی ناگپور میں دکشابھومی بھی ہے جہاں 1956میں ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر نے اپنے 5 لاکھ سے زائد حامیوں کے ساتھ ہندو مذہب کو چھوڑ کر بدھ مت اختیار کر لیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر نے ہندو مذہب اس وقت چھوڑا جب آر ایس ایس اپنے ہندوتوا کے نظریے سے ملک کے مذہبی ماحول کو پراگندہ کرنے اور منو اسمرتی کو ہندوازم کا ’سار‘ (بنیاد) بتانے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کر چکی تھی۔ کانگریس نے 2023 کے عین اختتام کے موقع پر اسی ناگپور میں اپنی یومِ تاسیس کے انعقاد اور عام انتخابات کا بگُل بجانے سے یہ ثابت کر دیا کہ آنے والا سال نظریاتی جنگ کا سال ہوگا۔
پھر بھی اگر ناگپور کو آر ایس ایس کے گڑھ کے طور پر مانا جائے تو پھر اس حقیقت سے کس طرح انکار کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ تین بار کے انتخابات میں کانگریس بی جے پی کو بری طرح پٹخی دیتی آ رہی ہے۔ کیا یہ دلچسپ نہیں ہے کہ جس ناگپور میں آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر ہے، جہاں سے مرکزی وزیر نتن گڈکری، ریاستی سپر سی ایم دیوندر فڈنویس اور ریاستی بی جے پی کے صدر چندر شیکھر باون کو لے آتے ہوں، وہاں پر 3 سال قبل ہونے والے ضلع پریشد کے انتخاب میں کانگریس و این سی پی نے 58 سیٹوں میں سے 40 سے زائد سیٹوں پر کامیاب ہوئی تھیں۔ جبکہ اس سے قبل اس ضلع پریشد پر بی جے پی کا قبضہ تھا۔ اس کے علاوہ اکتوبر 2022 میں ہونے والے پنچایت سمیتی کے صدور و نائب صدور کے انتخاب میں کانگریس نے 13 میں سے 9 سیٹوں میں قبضہ کیا تھا۔ پھر اس کے بعد ناگپور ٹیچر کوٹے کے ایم ایل سی سیٹ کے لیے ہونے والے انتخابات میں کانگریس کے امیدوار نے بی جے پی کے امیدوار کو 7 ہزار سے زائد ووٹوں سے شکست دی جبکہ یہ سیٹ گزشتہ 20سالوں سے بی جے پی کے پاس تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ناگپور سے اب آر ایس ایس کی زمین اکھڑ رہی ہے۔
اپنی 139 ویں یومِ تاسیس کے لیے کانگریس نے شہر کے دگھوری ناکہ میدان کا انتخاب کیا جہاں بہ یک وقت پانچ لاکھ سے زائد لوگ جمع ہو سکتے ہیں۔ یہ میدان ’بھارت جوڑو‘ کے نام سے مشہور ہوا اسے سنگھ کے ’بھارت توڑو‘ مہم کا ایک بہترین جواب مانا گیا۔ ایسے وقت میں جب ریاست اور مرکز دونوں جگہ آر ایس ایس کی نظریات والی حکومت قائم ہو، کانگریس کے پروگرام میں پورے بھارت جوڑو میدان کا بھر جانا یہ ثابت کرتا ہے کہ آر ایس ایس کی تنظیمی طاقت کا جتنا شور سنایا جاتا ہے دراصل اتنا ہے نہیں۔ یہ میڈیا کے ذریعے کھڑا کیا گیا ایک ہوّا ہے جس کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے آر ایس ایس میں اتنی طاقت ہے کہ وہ سبھی کو روند سکتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کانگریس ہی نہیں بلکہ ہراس پارٹی سے روندی جاتی ہے جس کی کوئی معمولی سی بھی نظریاتی بنیاد ہو۔ ایسی صورت میں جب نظریے کی جگہ موقع پرستی کا اور دیش بھکتی کی جگہ پر فسطائیت قابض ہوتی جا رہی ہوئی، اس کا روندا جانا تو مزید شرمناک ہو جاتا ہے۔
گزشتہ سال کا اختتام اگر ناگپور سے کانگریس کے نظریاتی اعلان جنگ کے ساتھ ہوا تو نئے سال کا آغاز رام مندر کے نام پر مذہبی پولرائزیشن سے ہو رہا ہے۔ سچ پوچھئے تو اس پولرائزیشن کی کوئی نظریاتی بنیاد ہے ہی نہیں سوائے مسلم منافرت کے۔ ہفتے بھر سے میڈیا پر رام مندر کی تعمیر اور ڈیزائن، مندر میں نصب کیے جانے والے رام للّا کے بت کاسائز، مندر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے دعوت ناموں اور پی ایم مودی کا ایودھیا دورہ و روڈ شو وغیرہ کے نام پر منظر نامہ تیار کیا جا رہا ہے۔ اس میں سے مسلم دشمنی صاف طور پر جھلکتی ہوئی محسوس کی جا سکتی ہے، جس کو 2024کے عام انتخابات میں آر ایس ایس و بی جے پی بھنانے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔ لیکن اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی گزشتہ دس سالہ مذہبی منافرت کی سیاست کے باوجود ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی اس کے نظریات کو خارج کر رہی ہے۔ اس کی کامیابی اسی 60 فیصد کی تقسیم پر منحصر ہوتی ہے، جس کا امکان انڈیا اتحاد کی تشکیل کے بعد سے کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔
پی ایم مودی اپنی انتخابی تقریروں میں گھر میں گھس کر مارنے کا جملہ خوب استعمال کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ یہ جملہ اس بالاکوٹ سرجیکل اسٹرائیک کے ضمن میں استعمال کرتے ہیں جس پر آج پانچ سال بعد بھی سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ اس کے برخلاف کانگریس نے ان کے ہی گڑھ میں گھس کر جس طرح ان کے نظریات اور ان کی پالیسوں پر سرجیکل اسٹرائیک کی ہے اس نے پوری بی جے پی کو ایودھیا سے شروع ہونے والے مذہبی پولرائزیشن میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا ہے۔ ناگپور مہاراشٹر کے ودربھ علاقے کا حصہ ہے اور اسی ودربھ کی 11 میں سے 9 سیٹیں جیتنے پر اندرا گاندھی ملک کی وزیر اعظم بنی تھیں۔ اب ایک بار پھر اسی ودربھ سے کانگریس نے 2024 کی انتخابی جنگ کا بگل بجا دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنے ہی گھر میں بے سہارا ہونے والا سنگھ پریوار اپنے مفسدانہ نظریے سے ملکی سطح پر کس طرح کانگریس کے سیکولر نظریے کا مقابلہ کرتا ہے۔
۔
نوٹ: مضمون نگار کے خیالات سے ادارہ کشکول اردو کا متفق ہونا ضروری نہيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18