سوئٹز رلینڈ کےحکام سے کی جانے والی ایک قانونی شکایت میں کہا گیا ہے کہ ایران کے صدر رئیسی کو جنیوا کے متوقع دورے پر، حکومت مخالفین کو ختم کرنے کی کوششوں سے تعلق کی پاداش میں گرفتار کر کے، انسانیت کے خلاف جرائم کے لئے فرد جرم عائد کی جائے۔\nاس شکایت میں سوئس وفاقی وکیل استغاثہ آنڈریاس ملر سے کہا گیا ہے کہ وہ 1988 میں ، مبینہ ماورائے عدالت موت کی سزاؤں اور انسانیت کے خلاف دوسرے جرائم میں صدر ابراہیم رئیسی کےمبینہ طور پر ملوث ہونے کے لئے انکی گرفتاری اور ان کے خلاف مقدمہ کو یقینی بنائیں۔\nجنیوا میں اقوام متحدہ کے گلوبل ریفیوجی فورم میں شرکت کے لئے صدر رئیسی کی وہاں آمد متوقع تھی، جو بدھ سے شروع ہو رہا ہے۔\nلیکن اقوام متحدہ نے پیر کی شام کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبدلہیان ، ایرانی وفد کی قیادت کریں گے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ رئیسی اس فورم میں شرکت نہ کریں۔\nانکے خلاف اس قانونی شکایت پر ،جسے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے دیکھا ہے، پیر کی تاریخ درج ہے۔\nسوئٹز رلینڈ کے وکیل سرکار کے دفتر نے فوری طور پر تصدیق نہیں کی کہ اسے شکایت موصول ہو گئی ہے۔\nیہ درخواست1988 کے عشرے میں ایران میں حکومت کے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کے تین مبینہ متاثرین کی جانب سے دی گئی ہے۔\nحقوق انسانی کے گروپ1988 کے موسم گرما میں چند ماہ کے اندر جب عراق کے ساتھ ایران کی جنگ ختم ہو رہی تھے، ایرانی جیلوں میں قید ہزاروں لوگوں کو، مبینہ طور پر ماورائے عدالت موت کی سزائیں دینے پر انصاف کےحصول کے لئے طویل عرصے سے مہم چلا رہے ہیں۔\nجو لوگ اسوقت مارے گئے تھے وہ بیشتر ایران کی عوامی مجاہدین تنظیم کے حامی تھے جسے مختصر طور پر۔ ایم ای کے یا پی ایم او آئی کہا جاتا ہے۔\nیہ وہ گروپ ہے جسے ایران ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ اور جس نے جنگ میں بغداد کی حمایت کی تھی۔\nپیر کے روز کی شکایت کے پیچھے کار فرما کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی طور پر رئیسی کی شناخت کر سکتے ہیں جو اس کمیشن کا حصہ تھے جس نے کریک ڈاؤن کے دوران ہزاروں مقید مخالفین کو موت کی سزائیں دی تھیں۔\nاصل درخواست دہندہ رضا شمیریانی کو 1981 میں گرفتار کیا گیا تھا اور شکایت کے مطابق وہ ڈیڑھ سو سےکم ان قیدیوں میں سے ایک تھے جو انیس سو اٹھاسی کے کریک ڈاؤن میں بچ گئے تھے۔\nاطلاعات کے مطابق قیدیوں کی کل تعداد پانچ ہزار تھی۔\nرئیسی اس وقت تہران کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کے کے طور پر کام کر رہے تھے۔\nبقیہ دو درخواست دہندگان بھی1988 میں ایرانی قید خانوں میں تھے۔ اور شکایت کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ وہ رئیسی کی ڈیتھ کمیشن کے رکن کی حیثیت سے شناخت کرتے ہیں۔\nاس قانونی شکایت کے علاوہ رئیسی کی اقوام متحدہ کی ریفیوجی فورم میں شرکت پر ناپسندیدگی کے اظہار کے لئےبھی ایک بین الاقوامی مہم جاری ہے۔\nجو ماضی میں انکے ملوث ہونے اور بقول انکے جرائم کے سلسلے میں ان پر مقدمہ چلانے کے لئے اصرار کرتی ہے۔\nجب اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر سے جو فورم کا میزبان ہے پٹیشن کے بارے میں پوچھا گیا تو ادارے نے اے ایف پی کو بتایا ایران ، اقوام متحدہ کا رکن ہے۔ اس لئے اسےگلوبل ریفیوجی فورم میں مدعو کیا گیاہے۔\nادارے کے ایک ترجمان نے ای میل میں کہا کہ ایران گزشتہ چالیس برس سے زیادہ عرصے سے، پناہ گزینوں کے بڑے میزبان ملکوں میں سے ایک رہا ہے۔ اور یہ کہ ایرانی وفد کی قیادت اسکے وزیر خارجہ کریں گے۔\nآیڈیا کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ ضینیوا پہنچ گئے ہیں۔\nوائس آف امریکہ \n۔\n۔\n