30 دسمبر 2006 کو صدام حسین کو صبح تین بجے اٹھا کر بتایا گیا کہ انھیں کچھ ہی دیر بعد پھانسی دے دی جائے گی۔ صدام کو مایوسی ہوئی۔ وہ خاموشی سے جا کر نہائے اور پھانسی کے لیے خود کو تیار کرنے لگے۔‘
عراق کے سابق صدر صدام حسین کی سکیورٹی پر مامور 12 امریکی محافظوں میں سے ایک ول بارڈنورپر نے اپنی کتاب ’دی پرزنر اِن ہز پیلس‘ میں صدام حسین کی زندگی کے آخری دن کے بارے میں لکھا ہے۔
ول بارڈنورپر کے مطابق اپنے آخری ایّام میں صدام کو توقع تھی کہ انھیں پھانسی نہیں دی جائے گی۔
دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ عراق پر حکومت کرنے کے بعد سنہ 2003 میں صدام کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔
عراق کے سابق صدر صدام حسین کو سنہ 1982 میں دجیل شہر میں اپنے 148 مخالفین کے قتل کے جرم میں ایک عراقی عدالت نے نومبر 2006 میں موت کی سزا سنائی تھی۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق ہلاک کیے گئے تمام افراد شیعہ مسلک سے تھے اور انھیں صدام حسین پر ایک ناکام قاتلانہ حملے کے بعد ہلاک کیا گیا تھا۔
صدام حسین کو سزائے موت دیے جانے کے وقت اور مقام کو انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا۔
عراق کے دارالحکومت بغداد کے مضافاتی علاقے ’خادمیہ‘ میں ایک عراقی کمپاؤنڈ جسے امریکی ’کیمپ جسٹس‘ کے نام سے جانتے ہیں، میں کنکریٹ سے بنے ہوئے چیمبر میں صدام کو پھانسی دی گئی۔
اس موقع پر عراقیوں کا ایک چھوٹا سا گروپ بھی وہاں موجود تھا۔
ان افراد کے مطابق جب جج صدام حسین کو پھانسی دیے جانے سے کچھ دیر قبل سزا پڑھ کر سنا رہا تھا تو صدام نے ہاتھ میں قرآن اٹھا رکھا تھا۔ صدام نے قرآن کی یہ کاپی بعد میں اپنے ایک دوست کو دینے کا کہا۔
پھانسی کے موقع پر قیدیوں کے کپڑے پہننے کی بجائے 69 برس کے صدام حسین نے سفید رنگ کی قمیض اور گہرے رنگ کا کوٹ پہن رکھا تھا۔
عراق کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ نقاب پوشوں کے ایک گروپ نے صدام حسین کو پھانسی کے تختے پر چڑھایا، تاہم پھانسی لگنے کے لمحات کو ٹی وی پر نشر نہیں کیا گیا۔
پھانسی کے تختے پر پہنچنے کے بعد ان کے سر اور گلے میں سیاہ رنگ کا کپڑا ڈالا گیا (وہ کپڑا جو عموماً پھانسی دیے جانے سے پہلے تمام مجرموں کے چہرے پر پہنایا جاتا ہے) اور اس کے بعد پھندا لگایا گیا لیکن جب جلاد صدام کے سر کو ڈھکنے کے لیے آگے بڑھا تو صدام نے اسے ایسا کرنے سے منع کر دیا کیوںکہ وہ اس کے بغیر مرنا چاہتے تھے۔
بی بی سی ورلڈ کے نامہ نگار جان سمپسن کے مطابق صدام کی پھانسی کی جو ویڈیو منظر عام پر آئی اس میں ’وہ انتہائی پرسکون دکھائی دیے اور انھوں نے معافی کے لیے بھیک نہیں مانگی۔‘
اس ویڈیو میں صدام کو قرآنی آیات پڑھتے ہوئے پھانسی گھاٹ جاتے دیکھا گیا۔
عراق کے اس وقت کے مشیر برائے نیشنل سکیورٹی مووافق الربائی بھی پھانسی گھاٹ پر موجود تھے۔ انھوں نے بعد میں بی بی سی کو بتایا کہ صدام خاموشی سے پھانسی گھاٹ کی جانب گئے۔
’ہم انھیں پھانسی گھاٹ کی جانب لے کر گئے۔ وہ کچھ نعرے لگا رہے تھے۔ وہ بہت زیادہ ٹوٹ چکے تھے۔‘
مووافق الربائی وہی شخص ہیں، جن کی سنہ 2013 میں ایک تصویر سامنے آئی تھی، جس میں دیکھا گیا گیا مووافق کے گھر میں صدام کا کانسی کا ایک مجسمہ پڑا تھا اور اس کے گلے میں وہی رسی موجود تھی، جس سے صدام حسین کو پھانسی دی گئی تھی۔
اس تصویر کے منظر عام پر آنے کے بعد مختلف ممالک سے لوگوں نے اس رسی کو حاصل کرنے کے لیے بولیاں بھی لگائیں تھی تاہم مووافق الربائی کا کہنا تھا کہ وہ صدام کے مجسمے اور اس رسی کو میوزیم میں رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
صدام کی پھانسی کے بعد ان کی میت کی تصاویر بھی عراقی ٹی وی پر نشر کی گئیں، جس میں انھوں نے کفن کی بجائے اپنا کوٹ پہن رکھا تھا اور لاش کو ایک سفید رنگ کی چادر میں لپیٹا گیا تھا۔
اپنی کتاب ’دی پرزنر اِن ہز پیلس‘ میں بارڈنورپر لکھتے ہیں کہ صدام کے 12 محافظوں میں سے ایک نے کوشش کی کہ وہ ہجوم کو ایسا کرنے سے روکے تاہم ان کے ساتھیوں نے اسے واپس کھینچ لیا۔
ان 12 محافظوں میں سے ہی ایک ایڈم روتھرسن نے بارڈنورپر کو یہ بتایا تھا کہ ’جب صدام کو پھانسی دے دی گئی تو ہمیں لگا ہم نے اسے دھوکہ دیا۔ ہم خود کو قاتل تصور کرتے تھے۔ ہمیں لگا جیسے ہم نے ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا ہے جو ہمارے بہت قریب تھا۔‘
13 دسمبر 2003 کو سابق عراقی صدر صدام حسین کو گرفتار کرنے کے بعد ان پر تین برس تک مقدمہ چلا تھا اور پھر پانچ نومبر 2006 کو انھیں عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔
صدام حسین کے خلاف مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے سے پہلے امریکہ کے ایک سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک کو کمرۂ عدالت سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے جج کو ایک چِٹ تھمائی تھی جس پر لکھا تھا کہ ’یہ مقدمہ ایک ’مذاق‘ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے کشکول ایپ کے واٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں ⬇ کلک کریں

https://whatsapp.com/channel/0029Va4emE0B4hdX2T4KuS18